دینی حکومت کی ضرورت کیوں ہے؟

مذکورہ بالا عالمی سماجی مسائل جب مغرب کی عینک سے دیکھے جاتے ہیں تو صرف یہی مسائل نہیں ہیں بلکہ مسائل اس سے زیادہ ہیں اور سنگین نوعیت کے ہیں نیز مغربی نظر سے مسئلہ کو درک کرنے والے بہت سے مسئلے مسئلے ہیں ہی نہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ عوام ان سے دوچار نہیں بلکہ ان مسائل کی جڑ دوسرے مسائل ہیں یا دوسرے مسئلہ اس مسئلہ کا پیش خیمہ ہیں ۔ تیسری دنیا جو کہ دنیا کے 80 فیصد انسانوں پر مشتمل ہے ان کے مسائل دنیا کی 20 فیصد اشرافیہ کے مقابلے پر بہت زیادہ ہیں۔عالمی سماج پر مقتدر طاقتیں جس ڈھٹائی کے ساتھ اپنے پست مادّی مقاصد کیلئے ہر طرح ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں اور ظاہری چمک دمک سے بھرپور علم و دانشاور سرمایہ پرستی کے فروغ میں کوشاں ہیں اس کے مقابلے پر واحد اسلام کا مکتب اھلبیت علیہم السلام ہے جو انسان کے مسائل کے حل پیش کرتا ہے۔ اس کا بنیادی شعبہ حکومت و ریاستی انتظامیہ ہے جس کو مکتب اھلبیت "امامت" کے ذیل میں سماجی مسائل کے حل کے طور پر تجویز کرتا ہے۔ حکومت اور ریاستی انتظامیہ میں اہل افراد کے آنے سے ہی سماجی مسائل خواہ کسی نوعیت کے ہوں حل ہوجاتےہیں۔ ایسے مقتدر کیلئے مومن ہونا شرط ہے اگر ایک سیکیولر اور عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ دین کی حکمتیں لیکر وہ معاشرے کے مسائل حل کرلے گا اور خود چاہے دین ہو یانہ ہو سماجی مسائل حل ہوجائیں گے تو وہ سخت غلطی پر ہے، لہذا اسلام سماجی مسائل کیلئے جہاں ہر شعبے میں ہدایت دیتا ہے تو سب سے زیادہ اہمیت قائد اور قیادت کے اسلامی کردار کو بھی دیتا ہے اگر قائد مومن نہیں ہے تو وہ خود مسائل بڑھاے کا سبب بنے گا۔

اسلام چونکہ نظریاتی طور پر مسلمہ ضابطہ حیات ہے یعنی زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔عملی طور پر طریقہ کاروں میں فرق ہے۔ اسلام کی نظر میں سماج کے انتظام انصرام کیلئے بنیادی شعبہ حکومت اور ریاستی انتظامیہ ہے۔ لہذا اس شعبہ میں صرف وہ افراد آنے چاہییں جو قوموں کی ذمہ داری اٹھانے اور ان کے مسائل کے تدارک یا حل کیلئے پر خلوص ہوں اور ریاستی مشنری کو دیانت داری، صداقت اور امانت داری جیسی صفات کے ساتھ چلانے کی بھرپور کوشش کرنے کا عہد کریں۔ جب اس شعبہ میں معتبر افراد آتے ہیں تو چونکہ وہ خداوند قدوس کو مالک و قادر اور روز حساب کتاب کا مالک سمجھتے ہیں اور ہر عمل کی مکافات پر یقین رکھتے ہیں تو پھر یا تو جنت کی خواہش میں یا مکافات کے خوف کے زیر اثر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے ادا کرتے ہیں۔ لہذا ایسے معاشرے جہاں ایسے حاکم ہوں تو وہاں غربت، جہالت، بیماری، معذوری، حق تلفیاں، چوریاں، زبردستی اور جبر و تسلط ، کرپشن، انتشار ، استکبار وغیرہ دوسرے معاشروں کی نسبت کمتر سطح پر ہوتے ہیں۔اسلام جس سماجی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد کا حکم دیتا ہے اس کا مرکزی کردار وہ ریاستی یا قومی قیادت ہوتی ہے جو معاشرے کو مادّی اور معنوی تکامل کی طرف لے کر چلتی ہے لہذا اگر قیادت فاسد ہو تو معاشرے کا فاسد ہونا لازمی ہے۔ تمام قسم کے سماجی اور انسانی حقوق کی ادائیگی کا جامع منصوبہ صرف اسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے جب سماجی قیادت خدا کا خوف، علم و شعور، شجاعت و رواداری، انصاف وغیرہ جیسی صفات کی حامل ہوگی۔سماجی قیادت کی مثال گھر میں سرپرست و باپ کی سی ہوتی ہے اور قوم اسی کردار کی مالک ہوتی ہے جس کردار کا مالک حاکم ہوتا ہے۔ اگر عالمی سماج میں یا کسی قوم میں انتشار ہے کسی قسم کا بھی فساد ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حاکم نے قوم کی تربیت درست انداز میں نہیں کی ہے۔کوئی بھی عقل مند سماجی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور سماجی مسائل اور حقوق کی ادائیگی کیلئے حکومت کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتا۔ لہذا اسلام جو ضابطہ حیات ہے بدرجہ اتم حکومت اور قیادت کیلئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔سیاست اسی باعث دین کا بنیادی شعبہ ہے ۔ انسانی سماج کے مسائل کو سمجھنے کیلئے ہم کسی بھی ایک گھر کی مثال لے سکتے ہیں، کیونکہ ایک گھر یا فیملی جس طرح چلائی جاتی ہے اسی طرح پورے انسانی سماج کو اس مثال پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔کسی بھی گھر یا سماج میں ابتدائی طور پر خصوصا اور بعد میں عموماً تین بنیادی شعبے ہوتے ہیں جس سے گھر کی مادّی فلاح کا حساب لگایا جاسکتا ہے۔ ایک اس گھر کے سرپرست کا کردار دوسرا گھر والوں کی تعلیم اور ان کا فکری شعور و فکری بلوغت اور گھر کی معیشت و اقتصاد۔ان تینوں میں بھی سب اہم تعلیم اور فکری و شعوری بلوغت ہے۔ اگر علم و دانش موجود ہے تو معاشی و سیاسی مسائل اتنا گھمبیر مسئلہ پیدا نہیں کرتے لیکن اگر تعلیم و شعور نہیں ہے تو ذرا ذرا سی معاشی مشکلات و سیاسی پریشانیاں گھر کے افراد کیلئے وبال جان اور مصیبت عظیم لگنے لگتی ہیں۔ لہذا تمام فساد کی جڑ تعلیم ، علم و دانش کے حصول میں کوتاہی اور کاہلی اور فکری اور شعوری نابالغیت ہے۔مذہبی علم و دانش اسکول کالج و یونیورسٹی کی رسمی تعلیم سے زیادہ اہم ہے یا یوں کہیں کہ اسکول یونیورسٹی کی کالج سے کم اہم نہیں ہے۔مذہبی اعمال انسان کو خالق ارض و سماء سے جوڑے رکھتے ہیں اور سماجی رویوں میں اعتدال پیدا کرتےہیں اور یہی اعتدال بے شمار فسادات کی روک تھام کرتا ہے۔ انسان اگر اپنے آپ سے اور اپنے خالق سے سچا ہے اور خالق کے بنائے ہوئے ارضی سماوی اور انفسی قوانین سے آگاہ ہے تو یہ دانش نہ صرف مسائل کی روک تھام کرتی ہے بلکہ اکثر موارد میں اصلاح اور فلاح کی ضامن بھی بنتی ہے۔یعنی ایسا دینی باشعور فرد اپنے مسائل پر منفی رد عمل دکھانا تو دور کی بات ، دوسروں کے مسائل کی روک تھام کرتا ہے نیز مستقبل بین نظر سے دیکھتے ہوئے آئندہ آنے والے معاشرتی مسائل کے حل کیلئے بھی جت جاتا ہے۔لہذا جب ہم سماجی اقتدار و قیادت کی بات کرتے ہیں تو وہ ایسے ہی دینی قائد کی بات ہوتی ہے جس میں ایسا جذبہ اور خلوص ہوتا ہے جو دنیا اور دنیا کی زرق برق کی طرف رغبت نہ رکھتا ہو، مخلوق خدا سے مخلص ہو، باہمت اور باحوصلہ ہو، سازشوں کے مقابلے پر شجاعت کا حامل ہو تدبر و تفکر و مشاورت کے ذریعے مسائل کے مثبت حل کیلئے کوشاں ہو۔معاشرے میں علم ودانش کے فروغ کیلئے ہمہ وقت حاضر ہو۔ خود بھی آفاقی، ارضی اور انفسی قوانین قدرت سے آگاہ ہو اور دوسروں کو بھی ان قوانین کی تعلیم دیتا ہو۔معاشرے کی بنیادی ضروریات کے ساتھ موجودہ زمانہ کی ضروریات اور تقاضوں سے باخبر ہو اور ان کو پورا کرنے کیلئے انتھک جدوجہد کرنےوالا ہو۔ ایسے قائد اس بہار کے زمانے کی طرح ہوتے ہیں جو کم وسائل میں دشمن کی عظیم سازشوں اور مکر و فریب کے مقابلے پر بھی قوم کو حوصلہ ، ہمت، دانش، توکل، زہد، تقوا و پرہیز گاری کے ساتھ لیکر چلتے رہتے ہیں۔ ایسے قائد اس موسیٰ ؑ کی طرح ہوتے ہیں جو فرعون کے مقابلے پر اپنے محدود وسائل (لاٹھی، عصاء) کے باوجود خداوند متعال کی نصرت پر یقین رکھتے ہیں۔ایسا معاشرے جہاں ایسے عاشقان خدا قائدین موجود ہوں وہاں سماج میں بھی ایک دوسرے سے مہربانی، عشق، رواداری ، ہمدردی وغیرہ رچی بسی ہوتی ہے اور یہ عشق و مہربانی اس معرفت و دانش کی مرہون منت ہوتی ہے جس کیلئے محنت کی گئی ہوتی ہے۔ایسے معاشرے میں مادیات کو بطور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے، معنویات کے حصول کی خاطر ترجیحات رکھی جاتی ہیں۔ایسے خدائی عشق زدہ معاشرے میں قانون اور سزا سے بچنے کیلئے نیک نہیں بنا جاتا بلکہ ہر فرد اپنی خدائی ذمہ داری کا تعین کرتا ہے اور اس کو اپنے شوق اور خلوص سے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ایسی قیادت کی حکومتی مشنری بھی صداقت، دیانت اور امانت کی عکاس ہوتی ہے او ریوں سماجی مسائل کم سے کم سطح پر آجاتے ہیں۔لہذا ایسی قیادت کو بنانے کیلئے جس تعلیم اور ماحول اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمیں آج درکار ہے اور اس تربیت کیلئے ہماری ماؤں کے ساتھ دیگر سرپرستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد تیار کریں جو آئندہ معاشرے کی باگ ڈور ان خطوط پر چلائیں۔یہ پورا ایک پروسس ہے جس میں جلدی نتیجہ نہیں آتا ہے اور خداوند متعال کی نصرت کے ساتھ اپنے وقت پر ظاہر ہوتا ہے۔

اسلام مکمل سماجی نظام پیش کرتا ہے اور حکمرانی اور معیشت کے قوانین کے ساتھ ثقافتی و تہذیبی رویوں نیز عائلی زندگی کی بھی تربیت کرتا ہے۔ اسلام کے نام پر کج فھم اور بے ایمان قسم کے لوگ خواہ کسی لباس میں ہوں اپنے مادّی مفادات کی خاطر ہر تقدس کو پائمال کررہے ہیں لیکن ان کے مادّی مفادات کا تحفظ کرنے والے وہ ہیں جن کے پاس سرمایہ ہے اور کثیر تعدار میں ہے لہذا یہ سرمایہ دار عالمی تسلط قائم کرنے کیلئے نہ صرف مذہب کے کمزور ایمان افراد کو استعمال کررہے ہیں بلکہ ہر شعبے میں اپنے خزانوں کو رشوت دے کر فسادات کو فروغ دے رہے ہیں۔ عالمی حکم نامہ اگر مثبت روایات اور شستہ تہذیب کو فروغ دے ، انسانیت کی کرامت کا قائل ہو اور سرمایہ کو مقصد زندگی نہ سمجے تو بہت احسن فعل ہے مگر خواہ وہ مغربی جمہوریت ہو جس کو دنیا کی اقوام پر مختلف حیلے بہانوں سے مسلط کیے جانے کی کوششیں جاری ہیں یا پھر اشتراکی اور اشتمالی نظام ہو یہ سب اسلام کی نظر میں صرف جذاب نعرے ہیں مگر حقیقت میں یہ انسان کے حقوق کی ادائیگی میں رکاوٹ انسانی سماج کی تباہی کے فارمولے ہیں۔اسلام اپنے تربیتی اسلوب کے باعث جنگ و جہاد کے بھی تہذیب و ثقافت کا حامل ہے جہاں مثلہ کرنا حرام ہے اور جنگی قیدیوں کے بھی بہت سے حقوق کا قائل ہے۔ ہمیں اسلام کے دعوے داروں اور خود اسلام کی تعلیمات میں فرق کرنا چاہیے، اگر انسان اپنی تربیت نہ کرے تو وہ ممکن ہے علم توحید جاننے کے باوجود مشرک و ملحد واقع ہوا ہو۔ لہذا اس انداز سے دیکھیں تو بہت سے مکاتیب اور مذاہب ہیں جن کے پیرکار اپنے مذہب کی بہترین تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے اس میں ان کی کمزوری ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تعلیمات بری ہیں۔ آج کے دور میں اسلام بطور مذہب عالمی معاشرے کیلئے بہار کی حیثیت رکھتا ہے اور تیزی کے ساتھ افراد کا قبول اسلام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حق چھا جانے والا ہے اور باطل مٹ جانے والا ہے۔ قومیں اگر قانون فطرت کے مطابق ترقی و کامیابی کے قوانین پر عمل نہیں کرتیں تو نابود ہوجاتیں ہیں۔ غصہ اور شہوت دو ایسے عمل ہیں جو انفرادی اور معاشرتی دونوں صورتوں میں اگر پائے جاتے ہیں تو جلد وہ فرد یا قوم برباد ہوجاتی ہے۔استکبار یعنی غرور و تکبر اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوکہ بازیاں، جھوٹ فریب، تشدد، جبر، دھونس وہ اعمال ہیں جن کی بنیاد پر جنگیں برپا ہوتی ہیں، معاشی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں اور سماج میں ہر طرح کا فساد معاشرے میں رچ بس جاتا ہے پھر صرف عورتوں کے حقوق ہی نہیں سب کے حقوق پائمال ہوتے ہیں۔ قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ بھی اسی جذبے کے تحت انجام پاتی ہے اور جب جب سرمایہ دار نے اپنے مادّی مفادات کے تحفظ کیلئے جائز ناجائز کو ترک کردیا تو نہ پھر مذہبی راہنما بچے اور نہ ہی فلسفی، سائنسدان اور دانشور، سب جھوٹ و فریب کے دریا میں غوطے لگانے لگے۔ اسلامی معیشت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ خدا کی نعمتیں انسان کے پاس امانت ہیں، لہذا جتنا جائز ضرورت سے زائد ہو وہ کمزوروں میں تقسیم کردینا چاہیے۔ سرمایہ داری اگر انفاق و زکواۃ کے ساتھ ہے تو کوئی مضاعقہ نہیں۔

علم و دانش انسان کے سماج کے مسائل مادّی اور معنوی مسائل کیلئے ہونی چاہیے نیز سماجی تناظر میں ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔ اگر بڑی تعداد کے پاس بنیادی ضروریات کی اشیاء ہی موجود نہیں ہیں اور ان کی فراہمی کے بجائے ہم خلائی راکٹس اور دوسری تخلیقات میں لگے ہیں تو یہ عمل جائز نہیں۔
خود کشی خدا کی رحمت اور ناامیدی کے اسباب میں سے ہے لہذا انسان کو اتنا بالغ نظر و فکر ہونا چاہیے کہ وہ ناامید نہ ہو اور ہر لمحہ خداوند متعال کی رحمت کا امید وار رہے۔

فساد آور سچ سے مصلحت آمیز جھوٹ بہتر ہے۔

ہر وہ عمل جس سے کسی بھی شعبے میں فساد پیدا ہونے کا خدشہ ہو حرام ہے۔

نفرت اور حسد بری صفات ہیں، البتہ ظلم و فساد کے مقابلے کیلئے ظالم اور فسادی کو روکنے کیلئے نفرت زدہ انداز موجود نہ ہو تو جائز ہے۔

ذرائع ابلاغ انسانی کی علمی و نفسانی تربیت کے مراکز ہونے چاہییں۔ لہذا ان کو حق کی ترویج اور باطل کی تربیت کیلئے استعمال ہونا چاہیے۔

مرد اور عورت اپنی ذمہ داریوں کے عنوان سے فرق رکھتے ہیں ورنہ خدا کے نزدیک مرد و عورت میں سوائے اس کے کوئی تفریق نہیں کہ جو بھی اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں پوری کرے گا وہ ہی خدا کی نظر میں عزت دار ہے۔

اسلامک ٹچ سے مسلمان معاشروں پر عدل کی حکومت قائم نہیں ہوتی نہ ہی سماجی مسائل حل ہوتے ہیں بلکہ پورے کا پورا اسلام نہ صرف سب پہلے خود پر پھر دوسروں پر ابلاغ و نافذ کیا جاتا ہے۔
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57812 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.