تہذیبی تفاوت اور وومن سپورٹ گالا

گلگت بلتستان 28 ہزار مربع میل پر پھیلا ایک وسیع علاقہ ہے. اس علاقے میں چار مذاہب/ مسالک کے لوگ آباد ہیں.

ان چاروں کے بہت سارے بنیادی عقائد کیساتھ رہن و سہن اور تہذیب و تمدن میں بڑا بنیادی فرق ہے.یہ فرق اخلاق وعادات، معاشرت و سیاست، لباس، آرٹ، خوراک، ادب، فلسفہ، موسیقی اور عبادات تک موجود ہے. یہ فرق بہت سارے معاملات میں واضح ہوجاتا ہے.

یہ بھی واضح ہوکہ بعض مذاہب کے بعض کیساتھ تہذیبی معاملات میں اختلاف ہے تو بعض میں شدید اتفاق بھی موجود ہے. اس تہذیبی اختلاف و اتحاد کے مظاہر، مختلف اوقات میں دیکھنے کو ملتے ہیں.

جب بھی ان مذاہب کے لوگوں کا سیاسی و تہذیبی ٹکراؤ/ الجھاؤ ہوتا ہے تو یہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں. اور دیگر لوگ بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں. بعض دفعہ دو فریق اور بعض دفعہ تین فریق ایک کے مقابل آجاتے ہیں. یہ امنا سامنا محلہ سطح سے لے کر اسمبلی تک ہوجاتا ہے. شعبہ ہائے زندگی کا کوئی شعبہ اس اختلاف و اتحاد سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا.

کھبی کھبار حکومت کوئی پروگرام کا انعقاد کرتی ہے یا اسمبلی سے کوئی بل پاس ہوتا ہے یا سرکار کوئی ڈسیجن لیتی ہے تو جن مذاہب کا تہذیبی و سیاسی اور مفاداتی اتفاق ہو، اور حکومت کا ڈسیجن یا اسمبلی کا قانون ان کے تہذیبی و مفاداتی خلاف جاتا ہو، تو وہ اپنے اپنے طور پر سرکار کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں مگر ان کی یہ کوشش اپنی اپنی سطح پر ہوتی ہے. ان کے درمیان اب تک کسی مشرکہ قدر پر نہ اتفاق رائے ہوا ہے نہ اشتراک عمل.

ایسے حالات میں ایک اور مذہبی گروہ سامنے آتا ہے( یہ گروہ کوئی بھی ہوسکتا ہے، اہل سنت بھی، اہل تشیع بھی اور اسماعیلی و نوربخشی میں سے بھی ، کسی بھی معاملے کی نوعیت پر منحصر ہے کہ تیسرا گروہ یا چوتھا گروہ کون بن سکتاہے ) اور وہ حکومت کا حامی ہوتا ہے. بنیادی طور پر تیسرے گروہ کا تہذیبی و تمدنی اور سیاسی طور پر پہلے دو گروہ سے اس معاملے میں، الگ نظام فکر و حیات ہوتا ہے. حکومت اور اس گروہ کے خیالات و اعمال میں شدید یکسوئی ہوتی ہے.

وومن سپورٹس گالا جی بی، اس کی بہترین مثال ہے. اختلاف و اتحاد فیس بک سے لے کر تعلیمی اداروں اور ساتھ ممبران اسمبلی سے لے کر مذہبی و سیاسی رہنماؤں غرض ہر سطح پر واضح ہوچکا ہے. اسی طرح عید میلاد النبی منانے کے حوالے سے بھی یہ دیکھنے کو آتا ہے. اور سیاسی مفاد کی مثال جی بی کے آئینی تشخص کی دی جاسکتی ہے.

ایسے مظاہر مختلف تہذیبی و تم دنیاور سیاسی و شہری معاملات میں گلگت بلتستان میں وقتاً فوقتاً دیکھنے کو ملتے ہیں.

ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا اپنا نہ کوئی نکتہ نظر ہوتا ہے اور نہ ہی فکر وفلسفہ، وہ صرف زندگی کی رنگینیوں میں کھوجانا چاہتے ہیں. اور اپنے نفس کے تابع ہوتے ہیں. وہ اپنی جنسی و نفسیاتی تسکین اور ذاتی مفاد کے لیے کبھی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں تو کبھی کسی کے ساتھ.ان چند لوگوں کی اپنی مستقل کوئی جگہ نہیں ہوتی. ان کا ٹوٹل سرمایہ حیات ان کا ذاتی مفاد نفس امارہ کی تسکین ہوتی ہے. ایسے لوگ دراصل "خنثی مشکل" کی قبیل سے ہوتے ہیں یا آپ بالکل جدید اصطلاح استعمال کرنا چاہتے ہیں تو "ٹرانس جینڈر" بھی کہہ لیں. مثلا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی بیٹیوں، بہنوں کو سپورٹس گالا، بلکہ تعلیمی اداروں سے بہت دور رکھتے ہیں، اپنی بہن بیٹی کے بارے بڑے سخت ہوتے ہیں، کوئی بنیادی حق دینے کے روادار بھی نہیں ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کا سرعام فٹ بال میچ دیکھنا چاہتے ہیں. وہ بھی چشمے لگا کر.

احباب کیا کہتے ہیں؟
 

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 385182 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More