کرکٹ کھیڈ اے کافراں دی

کرکٹ ایک بڑا ہی دلچسپ کھیل ہے،جسے ہرعمر کے افراد بڑے شوق سے دیکھتے ہیں خواہ بڑا ہو یا چھوٹا،مرد ہوں بچے ہوں یا پھرخواتین ہر کوئی اس کھیل کا دیوانہ ہے۔جب بھی کرکٹ کے حوالے سے کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو دنیا کے تمام لوگوں کے چہروں پر ایک الگ ہی خوشی اور چمک ہوتی ہے،کرکٹ دیکھنے والوں کا جزبہ دیدنی ہوتا ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم ہرایونٹ میں پاکستانی ہی نہیں بیرونِ ممالک مقیم بہت سے لوگوں کی بھی فیورٹ ہوتی ہے۔پاکستانی جہاں بھی بستے ہوں اپنی قومی کرکٹ ٹیم کو سپورٹ کرنا نہیں بھولتے اور اپنے تمام ضروری کاموں کو ایک طرف رکھ کر کرکٹ گراونڈ میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے پہنچ جاتے ہیں،مگر یہاں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم کسی بھی ایونٹ کے اہم میچز میں ہمیشہ بری طرح شکست سے دوچار ہوتی ہے اور اسی طرح تمام لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔

2017 میں بھارت کےخلاف آئی سی سی چیمپینز ٹروفی کا فائنل کھیل کر جیت اپنے نام کی۔اس کے بعد سے اب تک پاکستان ایک بھی بڑا ایونٹ جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ 2019میں انگلینڈ نے سنسنی خیز کھیل کا مظاہرہ پیش کر کے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ورلڈکپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا 2021میں آسٹریلیا نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کو سیمی فائنل میں بری طرح مات دے کر فائنل میں اپنی جگہ بنا کر مخالف ٹیم کو شکست دے کر یہ کپ اپنے نام کیا۔ اسی طرح حال ہی میں ہونے والی پاکستان بمقابلہ انگلینڈ کی سیریز پاکستان میں کروائی گئی اور مہمان ٹیم نے شاہینوں کو ان کی ہی سرزمین پر بھرپور کھیل کا مظاہرہ پیش کیا اور سیریز شاہینوں کے ہاتھوں سے چھین کر جیت کا سہرہ اپنے سر جا کر چلتی بنی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم اب بنگلہ دیش روانہ ہو چکی ہے اپنی باقی کی سیریز کھیلنے۔

پاکستان کی کارکردگیوں پر پاکستانی عوام میں شدید غم و غصے کی لہر نے جنم لیا اور کھلاڑیوں کو آڑے ہاتھوں لیا یہاں تک کہ سب کے پسندیدہ بلے باز جو کہ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی ہیں کو گھر جانے کا مشورہ بھی دے دیا اور ساتھ ہی ساتھکوچز پر بھی تنقید کے خوب تیر برسائے۔وہیں پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ قومی ٹیم کے دفاع میں نکل پڑے اور کہا کہ میرے حساب سے اس طریقے میں کوئی غلطی نہیں ہے چیئرمینپی سی بی کے مطابق پاکستانی ٹیم نے اسی انداز میں 12 ماہ میں 80 فیصد کی شرح سے کامیابیاں حاصل کی ہیں، ٹیم نے سنسنی خیز میچز جیتے اور مختلف ایونٹس کے ناک آؤٹ مرحلے میں بھی پہنچی، انھوں نے کہا کہ آئی سی سی میں پلیئر آف دی ایئر میں قومی کرکٹرزآئے،اتنی بڑی تعداد میں ایسا کہاں ہوتا ہے؟ کہا جاتا ہے بٹن دبائیں اور آسٹریلیا کی طرح جارحانہ انداز میں کرکٹ کھیلیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم پرانے زمانے کی کرکٹ کھیلتے ہیں یہ ماڈرن ڈے کرکٹ نہیں ہے میں اس تجزیے کو درست مانتا ہوں لیکن ٹیم نے اسی طرح بھی کامیابی حاصل کی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کے نامور آل راونڈر محمد حفیظ جن کو پروفیسر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے انگلینڈ کیخلاف سیریز میں شکست پر ردعمل کا اظہار کیا کہتے ہیں کہ مسئلہ اس لیے آیا کہ ہمارے کھلاڑی اننگز بلڈنگ پر توجہ مرکوز نہیں کرتے خاص طور پر خوشدل اور آصف ایک ہی طرح اٹیک کرنے کی کوشش کرتے ہیںخوشدل کا سٹرائیک ریٹ 110، 111 ہے لیکن اسے انٹرنیشنل ہٹر بیٹسمین گردانا جاتا ہے جو کہ میرے نزدیک ٹھیک نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے کیوں سوچ لیا ہے کہ ہمیں 3، 4 یا 5 نمبر پر صرف چھکے لگانے والا پلیئر چاہیے، ہمیں چھکے نہیں چاہئیں بلکہ ان نمبرز پر ایک ایسا کھلاڑی چاہیے جو 30 گیندوں پر 50 رنز دے، ایک ایسا پلیئر ہونا چاہیے جو اننگز بلڈ کرسکے، ٹیکنیکل شاٹس کھیل سکے، وہ پریشر لے سکے۔ سابق کپتان کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ضرورت کے وقت ہمارا منتخب پلیئر اننگ کو کیسے بڑھاسکتا ہے، کیا وہ 30 گیندوں پر 50 دے سکتا ہے ؟ اگر نہیں تو ہم غلط ٹیم بنا رہے ہیں کیوں کہ ہم فخر، رضوان اور بابر پر انحصار کررہے ہیں۔

پاکستانی قوم کا بھی یہی کہنا تھا کہ بابر اور رضوان کے آوٹ ہو جانے کے بعد باقی تمام کھلاڑیوں کی لاین لگ جاتی ہے کوئی بھی ذمہ داری کے ساتھ نہیں کھیلتا، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ٹیم کا مڈل آرڈر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

2022 اس سال اکتوبر میں کھیلے جانے والے ٹی20 ورلڈ کپ کی میزبانی آسٹریلیا کررہا ہے اور یہ ورلڈ کپ جیتنا آسان نہیں ہو گا، اسی حوالے سے سابق فاسٹ باولرراولپنڈی ایکسپریس شعیب اخترکو یہ خدشہ ستانے لگا ہے کہ قومی ٹیم پہلے راونڈ میں ہی باہر ہو جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی مڈل آرڈر اچھی فارم میں نہیں اگرچہ اوپنرز جلد رخصت ہو جائیں توبعد میں آنے والے بیٹرز بھی ڈھیر ہو جاتے ہیں،میں ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق اور معاونین پر اسی لئے تنقید کرتا ہوں کہ مڈل آرڈر کی ترتیب درست کریں لیکن وہ کسی بات پر کان نہیں دھرتے لیکن یمید کرتا ہوں قومی کھلاڑی بہترین کھیل کا مظاہرہ کریں گے۔
اس ٹی20 ورلڈ کپ میں ایک بارپھر سے قوم نے کھلاڑیوں سے امیدیں باندھ لی ہیں،مگر ابھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے ساتھ ہونے والی سیریز کو دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جائے گا کہ قومی ٹیم کے لئے ورلڈ کپ جیتنا آسان ہو گا یا پھر مشکل؟

میرے خیال سے عوام کا غم وغصہ اپنی جگہ درست بھی ہے کیونک وہ بےحدمشکل سے بڑی ٹروفی جیتنے کا انتظار کرتے ہیں اور پاکستان ہر بار جیتا ہوا میچ مخالف ٹیم کی جھولی میں ڈال کر کروڑوں لوگوں کی امیدیں توڑ دیتا ہے اور کھلاڑیوں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے انگلینڈ سیریز ہارنے کے بعد خوشدل کو بھی کرنا پڑا اور لاہور سٹیڈیم میں خوشدل کیخلاف پرچی پرچی کے نعرے لگائے گئے جس سے وہ کافی افسردہ بھی نظر آئے۔ یہی عوام اپنے غصے کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے فنی میمز بنا کر بھی کرتی ہے مگر اپنے کھلاڑیوں سے بے حد محبت بھی کرتی ہے اسی لئے ہربار پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بھر پور طریقے سے سپورٹ کیا جاتا ہی اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔

ہمارے بیچ بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جن کو ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے اور کرکٹ کافروں کا ایجاد کردہ کھیل ہے اس لئے پاکستان کو کرکٹ چھوڑ کرہاکی پر توجہ دینی چاہیے اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو گھر بیٹھ جانا چاہیئے۔

 

Maisha Aslam
About the Author: Maisha Aslam Read More Articles by Maisha Aslam: 8 Articles with 4484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.