کیا ہماری یہی ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈکپ جیت سکے گی؟

سات میچز پر مشتمل ٹی ٹونٹی سیریز انگلینڈ نے چار ۔تین کے فرق سے جیت لی ۔جو ٹیم اچھا کھیلتی ہے کامیابی بھی اسی کا مقدر بنتی ہے ۔آخری ٹی ٹونٹی میچ میں پاکستانی ٹیم کو 67رنز کی دوری سے شکست کا ذائقہ چکھنا پڑا۔ سیریز ہارنے کے بعد کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ فرماتے ہیں کہ پاکستان ٹیم میں میچ ونر کھلاڑی موجود ہیں،عوام انہیں سپورٹ کرینگے تو یہ مایوس نہیں کریں گے ۔ہارنا اب ہمارا آپشن نہیں ۔ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم فرماتے ہیں ہمارے باؤلر اور بیٹسمین اکثرمعیا ر پر پورے نہیں اترتے ، ہمیں غلطیاں سے سیکھنا ہو گا۔جہاں تک ٹی ٹونٹی میچز کی اس سیریز کا تعلق ہے ہمیں اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کر لینا چاہیئے کہ ہماری ٹیم میں جو کھلاڑی شامل ہیں ،ان کے ہوتے ہوئے ہم کسی بڑی ٹیم مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ہم نے ایشیا کپ میں سری لنکا جیسی تھرڈ کلاس ٹیم سے ایک نہیں دو بار شکست کھائی جبکہ افغانستان سے ہارتے ہارتے بچے ۔اس وقت بھی رمیز راجہ کی جانب سے یہی کہا گیا تھا کہ ہماری ٹیم میں بہترین کھلاڑی موجود ہیں جو کسی بھی وقت اچھا کھیل کر میچ جیتا سکتے ہیں ۔ ایشیا کپ کے بعد انگلینڈ کی نوجوان اور ناآموز کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ۔ تو امید کی جارہی تھی کہ جسطرح ہوم سیریز میں کمزور ٹیم بھی وننگ ٹیم کی شکل دھار لیتی ہے وہ کھلاڑی جو دوسرے ملکوں میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں وہ ہوم سیریز میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔افتخار ، آصف ،حیدر اور خوش دل جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑے عظیم آل راونڈر ہیں لیکن جب انگلینڈ کے باولر باولنگ کرواتے ہیں تو انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اس بال پر ہٹ مارنی ہے یا گیند کوروکنا ہے ۔چنانچہ اسی تذبذب کا شکار ہو کر جب وہ گیند کو ہٹ کرتے ہیں تو باؤنڈری کے اندر ہی کیچ ہوکر خوشی خوشی پویلین لوٹ جاتے ہیں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انہیں آؤٹ ہونے کی اس لیے پیشمانی نہیں ہوتی کہ میچ کھیلنے کی پے منٹ تو پوری مل ہی جانی ہے پھر شدید گرمی اور دھوپ میں کھڑے ہوکر دیر تک پسینہ بہانے کی کیا ضرورت ہے ۔سکون سے پویلین میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے ۔ یاد رہے کہ اگر ہم کسی مستری اور مزدور کو گھرمیں کام کرنے کے لیے لاتے ہیں تو ہم اس وقت تک ان کو مزدوری کے پیسے نہیں دیتے جب تک وہ مطلوبہ کام مکمل نہیں کرلیتے لیکن پاکستانی کرکٹر کھیلے بغیر ہی تنخواہ سمیت دیگر مالی مراعات پوری حاصل کر لیتے ہیں اور وہ پاکستانی قوم کو شرمندگی ، پریشانی ، ڈپریشن دے کر اپنی دیہاڑی پکی کرکے چلتے بنتے ہیں ۔میری رائے میں صرف اس کھلاڑی کو پے منٹ ملنی چاہیئے جو اچھا کھیلتا بھی ہے اور ٹیم کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کاوشیں کرتا ہے، اس حوالے سے وکٹ کیپر محمد رضوان کی مثال دی جا سکتی ہے ۔جہاں تک بابر اعظم کی اس بات کا تعلق ہے کہ باولر اور بیٹسمین میعار پر پورا نہیں اترے ۔ میں ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ہماری ٹیم کے باولر اور بیٹسمین میعار پر اترے کب تھے ۔اگر انگلینڈ کی ٹیم نے تین میچ ہارے ہیں تو ان میں سے ایک میچ کوچھوڑ کر وہ اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ہارتے رہے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پوری سیریز میں صرف ایک میچ پاکستانی ٹیم کے بیٹسمینوں نے اچھا کھیلا جس میں بابر اور رضوان نے بغیر آؤٹ ہوئے 200رنز کا ٹارگٹ پورا کرلیا تھا، اگر خدا نخواستہ دونوں جلدی آؤٹ ہو جاتے تو اس میچ کا نتیجہ بھی وہی ہوتا جو ساتویں میچ کا ہوا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک کھلاڑی آؤٹ ہوتا ہے تو بعد میں آنے والے کھلاڑیوں کا وکٹ پر کھڑے ہوکر اچھا کھیلنے کو دل ہی نہیں کرتا ۔ ہمارے بلے باز اتنے با اعتماد ہونے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ کس گیند پر چوکا اور چھکا لگانا ہے اور کس گیند کو اعتماد سے روکنا ہے ۔جس گیند کو روکنا چاہیئے اس پر چوکا مارنے کی کوشش میں وہ آؤٹ ہو جاتے ہیں اوربعد میں آنے والے بلے بازوں پر پریشر بڑھادیتے ہیں۔یہی حال ہمارے فاسٹ باولر کاہے ،انہیں اس بات کا علم نہیں کہ ٹی ٹونٹی میچ میں شارٹ پچ گیند بیٹسمین کو چھکا لگانے کی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔جب ایسی بال پے چھکا لگتا ہے تو پھر ہمارے باولر کا چہرہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔ ہماری ٹیم کے کوچ باولروں کو نہیں بتاسکے کہ یارکر مارنے والے باولروں کو وکٹیں بھی زیادہ ملتی ہیں ۔میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ ہماری موجودہ ٹیم اگر ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں بھی پہنچ جائے تو اسے خوش بختی تصور کیا جانا چاہیئے ۔






 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.