خوشی کا عالمی دن اور ہم!

خوشی کے متعلق خلاصہ تحریر


بڑی عجیب سی بات ہے کہ خوشی کا بھی کوئ عالمی دن ہوتا ہے؟ بلکل دنیا میں ہر سال تمام ممالک کا ایک رپورٹ شائع ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنا خوش ہے۔ اگر معاشرتی حوالے سے دیکھا جاۓ تو ہر انسان کیلیے خوشی اک الگ مطلب رکھتی ہے۔ کسی کو چھوٹی چیزوں میں خوشی ملتی ہے ، کسی کو کچھ حاصل کرنے میں۔ تو کسی کو بڑا آدمی بننے مین۔ کسی کیلیے پیسہ خوشی ہے تو کیں کچھ فلسفے لہتے ہیں خوشی کا پیسوں سے واستہ نہیں۔

اب عام انسان ان سوالوں کے بیچ میں جھگڑ کر رہ گیا ہے۔ حال ہی میں BBC کی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ ہمارا ملک خوشی کی فہرست میں ۱۲۱ ویں نمبر پر ہے۔

ہمارے ملک میں لوگ معاشی حالات اور سماجی دباؤ کا شکار ہیں۔ ظاہر سی بات ہے بنیادی ضروریات کو بھاگ دوڑ خوشی کے ہر منظر کو دھویں میں اڑا دیتی ہے۔ اور خود کے لئے جینے کا وقت نہیں ملتا۔ لہتے ہیں زندگی اک فن ہے لمحات کو اپنے انداز میں گنوانے کا۔

لیکن کسی دوست نے مجھ سے اک روز پوچھا کہ آخر امیر لوگ بھی اس ملک میں سہولیات کے باوجود اطمینان والی زندگی نہیں جیتے؟ سن کر میں بھی حیران ہوا پھر معلوم ہوا کہ پیسوں سے سہولت تو ملتی ہے پر خوشی تب ہوگی جو دل کی کرنے کی جستجو ہے وہ پوری ہو جاۓ۔ آدھے سے زیادہ امیر تو دوسروں سے محتاط رہنے میں گزار دیتے ہیں۔ اک اور بڑی وجہ کہ اس ملک میں ہر طبقہ معاشرتی گھٹن کا شکار ہے۔ یعنی کسی کو بھی اپنی مرضی والی زندگی جینے کا حق نہیں۔ یہاں آپ کو وہ کام کرنے میں شاباشی ملتی ہے جن کو دوسروں کی پزیرائ حاصل ہو۔ عام لفظوں میں معاشرتی گھٹن کا مطلب لکھنے سوچنے اور بولنے پر پابندی ہے۔ ہمارے پاس ہر بڑا آدمی دوسرے کو پیار و محبت سے نہیں بلکہ طاقت کی زور پر اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ جو انسان کی اصل کیفیت سے بلکل الگ اور بھیانک ہے۔

بدھ مت مزہب کے راہشون دلالئ لامہ خوشی کے مطابق بات کرتے کہتے ہیں کہ خوشی کا تعلق آپ کے ظاہری واقعات سے زیادہ اندرونی حالات پر منحصر ہے۔

بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کہتے ہیں کہ خوشی کا کوئ راستہ نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہی راستہ ہے۔

مشہور فلسفہ نگار ارستو لہتے ہیں کہ خوشی کا انحصار ہم پر ہے۔

انسانیت کی خدمت کرنے والے مدَر ٹریسہ لہتے ہیں کہ خوشی عبادت ہے، طاقت ہے، محبت ہے اور خوشی وہ محبت ہے جو روح یعنی آتمہ کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔

رچرڈ باچ لہتے ہیں اگر آپ کی خوشی اس بات پر ہے کہ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں تو یقیناً آپ میں کوئ مسلۂ ہے۔

اگر میری بات مان لو تو اک بار اپنے اندر کی آواز کو ضرور سننے کا وقت دو ہو سکتا ہے کچھ بہتری نظر آۓ۔
 

S A Kareem Shah
About the Author: S A Kareem Shah Read More Articles by S A Kareem Shah: 2 Articles with 1067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.