انسان بہت سی جہتوں میں اختلاف اور تنوع کے ساتھ بہت سے
معاملات میں اشتراک کا حامل ہے، انسان چونکہ ایک معاشرتی وجود ہے اور دیگر
انسانوں کے ساتھ میل و ربط و ہم آہنگی رکھنا اس کیلئے ضروری ہے لہذا یہ
فطری امر ہے کہ انسان میں مشترکات پائے جاتے ہوں جس کی بنیاد پر ایک دوسرے
سے رابطے کیلئے بدیہی مفہوم سب سمجھتے ہوں۔ ثقافتی بنیادیں جیسے کہ کھانے
اور پہننے میں فرق و ذائقہ میں ایک عنصر جغرافیائی بھی ہے جو ثقافتی عنصر
سے علیحدہ ہے ۔ انسان کے رویئے، خیالات اور اعمال کوخاص شکل و جہت دیتے ہیں۔
مثلاً: کپڑے پہننا ہر انسان کیلئے ضروری ہے مگر ماحول اور ٹقافتی بنیادوں
پر اس کے رنگ، طرز مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح معاش کیلئے سب ہی جدوجہد
کرتےہیں مگر طرز و طریقہ اور کمی و زیادتی کا سامنا کرتے ہیں،مگر کلی اور
مشترک یہ ہے کہ ہوا سب کو چاہیے، روشنی سب کوچاہیے، کپڑے سب پہنتے ہیں،
کھانا سب کھاتے ہیں، رات کو استراحت سب کرتے ہیں۔ مگر اس کے طور طریقے،
انداز، رنگ ڈھنگ وغیرہ مقامی ضرورت اور آب و ہوا وغیرہ کے ذریعے مختلف
ہوتےہیں۔ لہذا اسلامی طرز زندگی اس مختلف رنگ ڈھنگ پر کوئی اعتراض نہیں
کرتا مگر یہ کہ ان کیلئے معیارات اور کیفیات کا تعین کرتا ہے اور ان کی طرف
نوع نگاہ مشخص کرتا ہے تاکہ ان میں انسان اور اسکی معاشرتی، اخروی امور پر
پڑھنے والے منفی و مضر مادّی ومعنوی اثرات کو زائل کردے۔۔تمام امور حلال،
پاکیزہ اور طاہر بنیاد اور طرز و طریقے کے حامل ہوں۔ خصوصا معاشی مسئلہ بہت
ہی بنیادی ہے جس کی بنیاد پر عام آدمی پر تمام مادی اور کافی حد تک معنوی
اور وحانی امور پر بھی اثر انداز ہوتےہیں۔ اس میں حلال کسب اور حلال خرچ
بہت ہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اسی طرح سیاسی امور میں بھی حاکم اور سیاستدانوں
کو دین سب سے زیادہ ذمہ دار اور حساس قرار دیتا ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس
سے تمام معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ ابلاغیات کا شعبہ جس میں میڈیا کا کردار بھی
اہم ہے تاکہ معاشرے میں مثبت اور تعمیری اور تخلیقی راہیں پیش کی جاتی رہیں
اور نوجوانوں اور جوانوں میں مثبت و تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔
میڈیا تعلیم و تربیت کا ایک بہت عظیم رکن ہے، بعض مواقع پر میڈیا اسکول،
مدرسوں اور یونیورسٹیز سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے لہذا اس کو بھی تعمیری
انداز کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسے سماجی اورثقافتی ادارے ہونے چاہییں جو نئی
نسل کو مثبت تعمیری اور تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں اور دوسری اقوام
اور ملتوں یا ایک ہی گھر میں مختلف نظریات رکھنے والوں کے ساتھ رواداری کے
فروغ کا باعث بنیں اور غیر مسلم یا غیر نظریات رکھنے والوں کے ساتھ ایسے
انداز میں امر بالمعروف یا نہی عن المنکر انجام دیں کہ فرد یا دیگر انسان
اچھے طریقے سے دعوت حق کی طرف راغب ہوسکیں۔ خلاصۃً یہ کہ فردی اور معاشرتی
طور پر انسان اس قابل ہو کہ وہ کمالِ مادّی کے ساتھ کمال معنوی کی طرف بھی
راغب رہے۔ کمال مادّی میں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں مگر معنوی کمال جس
میں خصوصا اسلامی تعلیمات اور دینی رسوم کو بعض افراد عمداً ناکارہ باور
کرانے کی کوشش کرتےہیں ایسے مخالفین کی روک اور ان کی تعلیمات کو باطل باور
کرانے میں معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم و دانش رسمی کے ساتھ
دینی علم و دانش و بصیرت کا حامل ہو۔ سیاسی امور سے غافل نہ ہو۔ نیز عائلی
زندگی جو کہ معاشرے کا ایک بنیادی رکن ہے اس کو بھی فراموش نہ کرے۔اسلامی
معاشرے کے فرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت جو خداوند متعال نے اسے عطا
کی ہے اس سے انحراف نہ کرے اور اپنے وجود کو جو خدا کی طرف سے امانت ہے اس
ذمہ داریوں سے آگاہ ہو۔ اپنی خلقت کے ہدف سے آگاہ ہو، انبیاء رسل اور ائمہ
ؑ کی زندگیوں اور ان کے ارسال کا مقصد و ہدف سے بھی آگاہی رکھتا ہو۔ اور
خود اپنے لئے بھی ان اہداف و مقاصد سے ہم آہنگی پیدا کرے تاکہ یہ دنیاوی
معاشرہ جو آخرت کی کھیتی ہے کہ عنوان کے طور پر یہاں اعمال کی زراعت کرسکے۔
کیونکہ بہرحال ایک نہ ایک دن انسان کو اس دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کرناہے
جس کا وسیلہ صرف یہ دنیا ہے اور اس میں اپنے شعبہ جات میں رہتے ہوئے ،
توحید، عدالت، اخلاق، شجاعت، رواداری وغیرہ کے ذریعے اپنی اس آخرت کو آباد
کرے۔
|