یہ 2020 کی بات ہے. میں گھڑی باغ گلگت میں انکل ہزارہ بیگ
کی ڈرائی فروٹس کے پاس کھڑا تھا. اتنے میں ہمارے دوست مفتی ثناءاللہ
(نمبردار چکرکوٹ) اپنے دو بچوں کے ہمراہ پہنچ گئے.مغرب کا وقت تھا. انہوں
نے چکرکوٹ جانا تھا، جلدی میں تھے جب کہ ان کا چھوٹا بیٹا مصر تھا کہ
کنوداس میں اپنے تایا کے پاس رات گزارے.
نمبردار نے کہا. میں اسکو کہتا ہوں اپنا گھر چلیں لیکن یہ یہاں رات گزارنا
چاہتا ہے. وہ بچے اس کو پسند نہیں کرتے. بچے اس سے ضد کرتے ہیں.
بچے نے کمال استغنا سے کہا. " مجھے معلوم ہے وہ بچے مجھے پسند نہیں کرتے،
اس کے بدلے میں، میں بھی ان کو پسند نہیں کرتا لیکن پھر بھی میں رات ان کے
ساتھ گزاروں گا"
یقین جانیں! میں حیران ہوا.بچے کو فورا انعام دیا. نمبردار سے کہا آپ
جائیں، لیٹ ہورہے ہو، میں بچے کو پہنچا دونگا.
نمبردار نفسیاتی طور پر بچے کو ہائی جیک کررہے تھے تاکہ ساتھ گھر لے چلیں.
مگر یہ بچہ جانتا تھا کہ اس کے تایا کے بچوں کے ساتھ اس کی نورا کُشتی ہوتی
رہتی ہے. پسند اور ناپسند کا سلسلہ بھی ہے مگر باوجود اس کے وہ بچہ ان کے
ساتھ سروائیول کرنا چاہتا تھا.ان کے ناپسند کرنے کی باوجود ان کے ساتھ رہنا
چاہتا تھا. یہ ایک مشکل کام ہے مگر بچہ کررہا تھا.
ہمارا مجموعی المیہ یہ ہے کہ ہم اختلافات کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے. ہمیں
اگر کوئی پسند نہیں کرتا تو اس کو انجوائے کرنے کی بجائے اس کو دشمن
بنالیتے ہیں. اگر کوئی نظام ہمیں پسند نہیں، ہم اسکو ٹھیک بھی نہیں کرسکتے
تو ہم اس نظام ہی کے مخالف ہوجاتے ہیں.
ہم سروائیول کے اصول سے نابلد ہیں. لازمی نہیں دنیا کے سارے لوگ ہمیں پسند
کریں. لاکھوں لوگ ناپسند بھی کرسکتے ہیں. اور یہ بھی لازمی نہیں کہ دنیا کا
نظام ہمارے فکر و نظر اور دلیل و برہان کے مطابق چلے. یہ کبھی نہیں ہوگا.
ہمیں چھوٹی سطح سے بڑی سطح تک نظام حیات کو اپنی فکر و نظر کے مطابق چلانے
کی کوشش کرنی چاہیے، اگر نہیں ہوسکتا تو پھر دوسروں کے ساتھ جینا اور چلنا
سیکھنا چاہیے.
بچہ کا یہ فلسفہ بہت پسند آیا. یقیناً اسی میں حضرت انسان کی ترقی ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|