ٹرائی ریجنل سپورٹس مقابلے اور تمغہ شجاعت کے حقدار ریجنل افسران


وہ ڈیپارٹمنٹ جو کھیلوں کے میدان میں "ہیروں "کی تلاش میں مصروف عمل ہیں جسے وزارت کھیل خیبر پختونخواہ بھی کہا جاتا ہے میں خود اتنے "ہیرے" موجود ہیں کہ "ہیروں " جسے لعل کہا جاتا ہے کو اپنی قدر و قیمت کا بھی اندازہ نہیں.کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ان لعل و جواہر سے زیادہ قیمتی ان "ہیروں "کی اپنی ڈیپارٹمنٹ میں کوئی قدر ہی نہیں.اس سے بڑی بدقسمتی کی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اور کیا ہوگی. یہ اعزاز بھی ریجنل سپورٹس آفس پشاور و ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور کو ہی جاتا ہے کہ انٹر کالجیٹ کے مقابلوں کے دوران اسی دفتر کے لائق و فائق افسران نے تین اضلاع پر مشتمل مقابلوں کا انعقاد کیاجسے ٹرائی ریجنل سپورٹس مقابلوں کا نام دیا گیا.جن میں مردان نوشہرہ، پشاور، سوات، نوشہرہ اور صوابی کی ٹیموں نے شرکت کی - اتنی صفائی سے ان مقابلوں کا اہتمام کیا گیا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا کہ دو روز تک ریکارڈ میں رہنے والے مقابلے " صرف "ایک ہی دن میں ختم کروا دئیے گئے.

یہ بھی مردان، سوات اور پشاور کے قابل ریجنل افسران کو اعزاز جاتا ہے کہ انکی ریجن کی ٹیمیں ان مقابلوں میں شریک تو ہوئی تصاویر بھی ٹھیک ٹھاک چھپ گئی لیکن مردان سمیت پشاور میں میزبانی کے فرائض انجام دینے والے ریجنل سپورٹس آفیسرز کو پتہ بھی نہیں کہ ان مقابلوں ان کے ریجن کے کتنے فیمیل کھلاڑیوں اور بچوں نے شرکت کی.اور کون کونسے مقابلے کروائے گئے، سوائے سوات کے ریجنل سپورٹس آفیسر کے جنہوں نے اپنی اٹھارہ کھلاڑیوں کے مقابلوں میں شرکت کی کنفرمیشن کروائی.یہ اعزاز بھی پشاور میں واقع ریجنل سپورٹس آفس اور ڈسٹرکٹ آفس کو ہی جاتا ہے کہ دونوں کے پاس فنڈز کی بالکل کمی ہے. پٹرول کیلئے پیسوں کی کمی، دفتر میں سٹاف نہ ہونے کا رونا رونے کے باوجود یہ انہی کا جگرہ ہے کہ انہوں نے ٹرائی ریجنل مقابلے پشاور کے شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم میں کروا دئیے.

ایسے فٹ بال سٹیڈیم میں جہاں پری صرف اتھلیٹکس کے مقابلے اب تک ہوتے آرہے ہیں اور رسہ کشی کے مقابلے ماضی میں کروائے گئے لیکن اتنی صفائی سے ٹرائی ریجنل کھیلوں کے مقابلے شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم میں کروائے گئے کہ دو دن کے مقابلے صرف ایک دن ہی میں ختم کروا دئیے گئے، اتنی تیز رفتاری اور خوبصورتی سے کہ صبح نو بجے ٹرائی ریجنل مقابلوں کا آغاز ہوگا اور تین بجے کے قریب یہ مقابلے ختم بھی ہوگئے یہ اعزاز بھی صوبائی وزیر کھیل عاطف خان، سیکرٹری سپورٹس مشتاق احمد اور ڈائریکٹرجنرل سپورٹس خالد خان کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے سٹاف کو اتنا مخلص اپنے شعبے کیساتھ کردیا ہے کہ ریجنل سپورٹس آفیسر نے اپنے دفتر کو ٹیبل ٹینس کے مقابلوں کیلئے خالی کروا دیا جوکہ شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم میں دوسری منزل پر ہیں جہاں پر ٹیبل ٹینس کے مقابلے کروائے گئے ایسے مقابلے جس کیلئے ٹیبل کہاں سے آیا، اس کے جواب مقابلے ختم ہونے کے باوجود بھی کسی کے پاس نہیں کہ ٹیبل ٹینس کھیلنے کیلئے ٹیبل کہاں سے آیا.یہ ایک بڑا ٹرائی ریجنل راز ہے.

اس سے بڑی فخر کی بات اور کیا ہوگی کہ ٹرائی ریجنل مقابلوں کا افتتاح اسسٹنٹ کمشنر پشاور نے کیا اور اختتامی تقریب میں ڈپٹی کمشنر پشاور نے شرکت کی، اوردونوں تقاریب میں تحائف کے تبادلے بھی ہوئے جس کے بعد مقابلے ہوئے لیکن ان مقابلوں کی آفیشل سکورنگ کہاں پر ہوئی یہ بہت بڑا راز ہے جسے چھپانے کیلئے ریجنل سپورٹس آفس پشاور اور ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور سر دھڑ کی بازی لگے ہوئے ہیں کیونکہ سکورنگ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور ریجنل سپورٹس آفس پشاور کے مہربان یہ نہیں چاہتے کہ سکورنگ کا کسی کو پتہ چلے..عاطف خان کی وزارت میں اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہوگی کہ نہ تو مقابلوں کے رزلٹ آئے نہ ہی کھلاڑیوں کے نام آئے اور نہ ہی کوئی تصویر چھپ گئی کہ کون کونسے مقابلے کروائے گئے، ایسی تبدیلی کیلئے خیبر پختونخواہ کے عوام نے"ڈانس "کرکے "عمران خان " سمیت وزیراعلی محمود کو ووٹ بھی دیا تھا.

کھلاڑیوں کی تعداد کو چھپانے پر ریجنل سپورٹس آفیسر مردان جن کی جلد ہی پروموشن بھی ہونے والی ہیں اگر پی ایس بی کے افسران انکی اس ٹرائی ریجنل مقابلوں کو ان کے اعلی کارکردگی کے کھاتے میں ڈال دیں تو امکان ہے کہ انہیں گریڈ اٹھارہ سے انیس کے بجائے گریڈ بیس ہی مل جائے.کیونکہ ان کی ریجن کے کھلاڑیوں نے مقابلوں میں حصہ تو لیا تھا اور ان کی تصویر بھی چھپ گئی لیکن کتنے کھلاڑیوں نے کن مقابلوں میں حصہ لیا ان کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ وہ بتا سکیں کہ ان کے ریجن کے کتنے کھلاڑی ان مقابلوں میں مردان جو صوبائی وزیر کھیل کا حلقہ ہے کہ بچوں نے مقابلوں میں حصہ لیا. اس سے زیادہ فرض شناسی اور کیا ہوگی کہ میزبان پشاور کے ریجنل سپورٹس آفسر نے نہ صرف دو دن کے مقابلے ایک دن میں ختم کروا دئیے بلکہ انہیں بھی یہ یاد نہیں کہ کتنے کھلاڑی شریک ہوئے تھے. یہ الگ بات کہ اس بات کی تصدیق کیلئے جب ان سے رابطہ کیا گیا تو بدقسمتی سے انہیں "کتے" نے کاٹ لیا.اور وہ دفتر نہیں گئے.یہ بھی بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے کہ ڈپٹی کمشنر پشاور نے اپنی جاری کردہ پریس ریلیز میں ان مقابلوں میں ڈھائی سو کھلاڑیوں کی شرکت کی تصدیق کی لیکن اس سے بڑے اعزاز کی بات یہ ہے کہ "جی حضوری" میں اپنی مثال آپ ایک صاحب نے یہ تعداد چار سو کھلاڑیوں تک پہنچادی.

کچھ ناعاقبت اندیش اور بدنیت لوگ پشاور کے شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم میں منعقدہ ٹرائی ریجنل مقابلوں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں لیکن یہ ان کی تنگ نظری ہے کہ وہ اسے "میلے"سے تشبیہہ قرار دے رہے ہیں جس میں "کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ انے"کا حساب لگا رہے ہیں بھلا یہ بھی کوئی بات ہوگی کہ ریجنل سپورٹس آفسران سے صوبائی وزیر کھیل عاطف خان کیا کوئی یہ بھی پوچھ سکے کہ ٹرائی ریجنل مقابلوں کے شیڈول کا اعلان کب ہوا تھا، پشاور لانے والے کھلاڑیوں کا انتخاب کس بنیاد پر ہوا تھا، لانے اور لے جانے کے اخراجات عوامی ٹیکسوں کے تھے تو کتنے لگے اور ساتھ میں اس سے ان تین ریجن کے کھلاڑیوں کو کیا فائدہ پہنچا. بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے.ان ناقاعاقبت اندیش لوگوں کیلئے یہاں صرف یہ لکھنا ضروری ہے کہ کھلاڑی سامنے آئے یا نہ آئے تین ریجنل افسران سمیت ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسر کی تصاویر اخبارات میں بھی چھپ گئی، واہ واہ بھی ہوگئی اور ریکارڈ میں کارکردگی بھی آگئی بھاڑ میں جائے بقول شخصے "چی سامان خرص شو او کہ نہ شو خر کو خار اوکتو" یعنی سامان فروخت ہوا یانہ ہوا گدھے نے "شہر"تو دیکھ لیا.

یہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے دودنوں کے مقابلے ایک دن میں کروا دئیے، اتنی فرض شناسی، ایمانداری اور خلوص پر پشاور کے عوام محمود خان وزیراعلی خیبر پختونخواہ وزیر کھیل عاطف خان اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ ٹرائی ریجنل مقابلوں کے اتنی تیز رفتاری سے خاتمے، بغیر ٹیبل کے ٹیبل ٹینس کے مقابلوں کے انعقاد سمیت نامعلوم کھلاڑیوں کی تعداد پر تمام افسران کو "تمغہ شجاعت"دیا جائے.تاکہ یہ افسران مستقبل میں بھی اس طرح جانفشانی سے کام کرسکیں.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499464 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More