لوگ دسمبرکو ستمگرکہتے ہیں لیکن ہماری زندگی میں تو
نومبرکامہینہ بھی ستمگربن کرگزراہے۔وہ نومبرہی کی ایک رات تھی جب ہماری
والدہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑکردوربہت دورچلی گئی۔اس سانحے کواٹھ سال
ہوگئے ہیں لیکن آج بھی جب نومبرکی وہ رات اوروہ لمحہ یادآتاہے تودل کی
دھڑکنیں تیز،وجودغم سے بھاری بھاری اورپاؤں کے نیچے سے زمین سرکنے لگتی
ہے۔ہنسی،مسکراہٹ اورخوشیاں وہ تووالدہ کے جنازے کے ساتھ ہی رخصت ہوئیں لیکن
ماں کے جانے کے بعدوہ چین اورسکون بھی زندگی میں نہ رہا۔دل آج بھی والدہ کی
جدائی پر بے قراراورآنکھیں آج بھی والدہ کی یادمیں نم سے نم تر ہیں۔ان اٹھ
سالوں میں ہم نے جب جب بھی اس غم کوبھلانے کی غلطی کی والدہ اورزیادہ شدت
کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے نمودارہوئیں۔وہ جس ماں کے وجودسے
دنیاآبادہوتی ہے نا۔۔ اس ایک ماں کے جانے سے ہم بہت سوں کی دنیاویران
ہوگئی۔ماں کے جانے کے بعدیوں لگ رہاہے کہ جیسے اس دنیامیں اب ہمارابچاہی
کچھ نہ ہو۔لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ
ماں کے قدموں تلے صرف ایک جنت نہیں یہ پوری دنیااور بہت سی جنتیں ہیں۔ماں
اگرپاس ہوتویوں محسوس ہوتاہے کہ یہ پوری دنیا کیا۔؟ساری جنتیں بھی پاس ہیں
لیکن اگرایک ماں ساتھ نہیں توچاہے دنیاکی ساری خوشیاں،نعمتیں اورطاقتیں
کیوں پاس نہ ہوں یہی لگتاہے کہ کچھ بھی پاس نہیں۔ماں کے بغیرایک دن
کیا۔؟ایک ایک لمحہ بھی قیامت بن کرگزرتاہے۔والدہ کی جدائی کے بعدیہ بیتے
اٹھ سال ہم پرکیسے گزرے۔؟یہ اﷲ ہی جانتاہے۔ماں کے بغیربھی کوئی زندگی ہوتی
ہے۔؟اصل زندگی ہی توماں ہوتی ہے جونہ رونے دیتی ہے اورنہ کبھی گرنے ۔ماں کے
بغیرتوپھرزندگی میں صرف رونادھونااورگرناہی رہتااوربچتاہے۔آج ہم زندگی میں
ایک نہیں ہزاربارروئیں،چیخیں،چلائیں اور گریں کسی کوکوئی پرواہ نہیں لیکن
ماں کی موجودگی میں اگرہم کہیں ایک باربھی روتے یا چیختے توماں آسمان
سرپراٹھالیتی ۔اسی لئے توکہتے ہیں کہ ماں ماں ہوتی ہے۔کتنے خوش قسمت ہیں وہ
لوگ جوآج بھی ماں کی گودمیں سررکھ کرسوتے ہیں اوران کی دعائیں لیتے ہیں۔ماں
ایک ڈھال ہوتی ہے جواپنے بچوں کی طرف آنے والی مصیبتوں،پریشانیوں اوربلاؤں
کوبھی اپنی دعاؤں سے ٹال دیتی ہیں۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ جب تک ماں زندہ
ہوتواکثر پریشانیوں،مصیبت اورآزمائش سے بچنے کے امکانات بھی بچاس نہیں
سوفیصدہوتے ہیں کیوں کہ ماں کے ہاتھ بچوں کی حفاظت ،کامیابی اورترقی کے لئے
ہمہ وقت اﷲ کے حضورپھیلائے ہوئے رہتے ہیں لیکن جب ماں نہ ہوتوپھرمسائل
ومصائب سے بچنے کے چانسزنہ ہونے کے برابررہ جاتے ہیں۔ ماں اﷲ تعالیٰ کی طرف
سے وہ خوبصورت تحفہ ہے جس میں اﷲ پاک نے اپنی رحمت، فضل و کرم، برکت، راحت
اور عظمت کی آمیزش شامل فرماکرعرش سے فرش پر اتارا ۔دنیامیں ماں ہی وہ
واحدہستی ہے جس کاکوئی نعم البدل نہیں، ممتا کے جذبے سے سرشار اور وفا کا
پیکر اور پر خلوص دعاؤں کے اس روپ کی خوبیوں کو بیان کرناہمارے جیسے
انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ماں کا حق کوئی ادا نہیں کر سکتا، ایک بار ایک
صحابی حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اﷲ!میں
نے اپنی ماں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق
اداکر دیا۔؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں تونے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا
حق بھی ادا نہیں کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
فرماتی ہیں میں نے رسول اﷲﷺ سے عرض کیا۔اے اﷲ کے رسول۔ عورت پر سب سے بڑا
حق کس کا ہے۔؟آپ ﷺ نے فرمایا شوہر کا۔ میں نے عرض کیا اور مر د پر سب سے
بڑا حق کس کا ہے۔؟توآپ ﷺ نے فرمایا اس کی ماں کا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں ایک شخص نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔یا رسول اﷲ!سب
سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی)
کروں۔؟اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا: تیری ماں۔عرض کیا پھر۔؟فرمایا:تیری ماں۔عرض
کیا پھر۔؟ فرمایا: تیری ماں۔عرض کیا پھر۔؟ فرمایا: تیرا باپ۔ ماں باپ سے
بھلائی کاحکم اس رب نے دیاجس نے ہمیں پیداکیا۔فرمایاان دونوں کے سامنے کبھی
اف تک بھی نہ کہنا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں والدین کااحساس ان کے جانے
کے بعدہوتاہے،جب تک دونوں زندہ ہوں توہمیں ان کاکوئی احساس اورکوئی پرواہ
نہیں ہوتی۔آنکھیں ہماری اسی دنیامیں کھل جاتی ہیں لیکن افسوس وقت پھرہاتھ
سے نکل چکاہوتاہے۔آج کوئی ہم سے پوچھے کہ ماں باپ کی قدروقیمت کیا ہوتی
ہے۔؟ہم نے ماں باپ کوکبھی کوئی دکھ نہیں پہنچائے اورنہ ہی کبھی ان کے دل
دکھائے لیکن پھربھی ان کے جانے پردل میں ہمیشہ یہ حسرت رہی کہ کاش ہمیں
مرتے دم تک ماں باپ کی خدمت کے مواقع نصیب ہوتے۔والدین کی خدمت کے مواقع
شائدنصیب والوں کوہی نصیب ہوتے ہیں ۔ہم تووہ بدنصیب اوربدقسمت ٹھہرے ہیں کہ
جن سے ماں باپ جیسے تحفے ونعمتیں اﷲ تعالیٰ نے بہت جلدواپس لے لیں۔آج تواﷲ
کادیاہواسب کچھ پاس ہے لیکن جوہمارے لئے سب کچھ تھے وہ ہمارے پاس نہیں ۔ہم
پہلے ہی بتاچکے کہ والدین کاکوئی نعم البدل نہیں،جن کے ماں باپ زندہ ہیں
یاان دونوں میں سے کوئی ایک بھی حیات ہے وہ اپنی زندگیاں ان پرنچھاورکردیں
۔ان کی خدمت کواپنامعمول بنالیں ۔مائیں توویسی بھی دعائیں دیتی رہتی
ہیں،اگرماں زندہ ہے توخدمت کے ذریعے ان کی دعاؤں سے اپنے آپ کوسرسے پاؤں تک
بھگودیں۔یہی دعائیں کل کام آئیں گی۔آپ یقین کریں جولوگ ماں باپ کی خدمت
کواپنے اوپرفرض کرلیتے ہیں زندگی کے کسی بھی موڑاورمرحلے میں وہ پھرکبھی
ناکام نہیں ہوتے۔جن لوگوں نے والدین کودھتکارا،ان کے دل دکھائے یاان سے ایک
باربھی کوئی بددعالی۔ایسے لوگوں کوپھرہم نے اس دنیامیں ہی مارے مارے پھرتے
ہی دیکھا۔ویسے یہ توقدرت کاقانون ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ جیسابھی کوئی
کرتاہے وہی کل کوپھران کے بچوں کے ہاتھوں ان کے ساتھ بھی ہوتاہے۔ماں باپ
کامعاملہ دوسرے معاملات سے مختلف بھی ہے کیونکہ دیگرمعاملات میں یاصرف
دنیاکانقصان ہوتاہے یاپھرآخرت کا۔لیکن ماں باپ کے معاملے میں دنیاکی بربادی
کے ساتھ آخرت بھی پھرخراب ہوتی ہے۔اس لئے جولوگ چاہتے ہیں کہ وہ دنیامیں
برباداورآخرت میں خراب نہ ہوں وہ ماں باپ کی خدمت کواپناشعار،مقصداورمشن
بنالیں۔دل سے والدین کی خدمت کرنے والے یہاں ہوں یاوہاں۔۔وہ پھر جنت میں ہی
رہتے ہیں۔
|