والدین کیلئے سب سے خوفناک اور بے بسی کا لمحہ وہ ہوتا ہے۔
جب اُن کا کم سن بچہ یا بچی گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔ ہوش و حواس قابو میں
ہوتے ہیں نہ تیز دھڑکن اختیار میں۔ کس سے پوچھیں، کیا کریں؟ رشتے دار، عزیز
و اقارب، دوست، برداری، محلے دار، ساری دنیا کو پتہ چلے گا۔ عزت داؤ پر لگ
چکی ہوتی ہے۔
دعا زہرہ کے کیس میں بھی تو یہی ہوا تھا۔ والد ین کو یقین ہی نہیں تھا کہ
اُن کی چودہ، پندرہ سالہ بیٹی گھر سے بھاگ چکی ہے۔ بعض اوقات ایسے کیسز میں
والدین کو معلوم ہوتا ہے مگر وہ یہ فقرہ اپنی زبان پر لانے کی یاد نیا کو
بتانے کی ہمت نہیں رکھتے کہ اُن کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ پولیس سے
رابطہ کریں یا خاموشی اختیار کریں۔ گھبراہٹ، پریشانی،بے بسی،لاچاری، ایسے
والدین جیتے جی مر جاتے ہیں اور اگر کیس دعا زہرہ کی طرح ہائی پروفائل ہو
جائے تو میڈیا ایک طوفان کی طرح آپ کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پولیس اسٹیشن،
عدالتیں اور میڈیا والدین کو نفسیاتی طور پر اتنا متاثر کرتے ہیں کہ وہ
بیچارے دوہری اذیت کا شکار ہو کر زندہ میں رہتے ہیں نہ مردہ میں۔یہ وہ وقت
اور لمحات ہوتے ہیں جب لوگ آپ کے دکھ میں شریک نہیں ہوتے بلکہ اپنے گھٹیا
اور واہیات سوالوں سے والدین کو مزید دکھی کر دیتے ہیں۔ لیکن یہاں کچھ سوال
اور پہلو ایسے بھی ہیں جو بطور والدین سب کو اپنے سامنے رکھنے ہونگے۔
آخر بچے گھر سے بھاگتے کیوں ہیں؟ اس سوال کا سب سے پہلا جواب یہی ہے کہ اگر
کوئی بچہ یا بچی گھر میں کسی دباؤ میں ہے تو وہ بچے دباؤ سے بچنے کیلئے گھر
سے بھاگنے کیلئے بیرونی دروازے کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ گھر سے
بھاگنے والا ہر بچہ چالاک یا ہوشیار نہیں ہوتا بلکہ یہ اُس کی ناسمجھی اور
معصومیت ہی ہے کہ جسے چھت کے چھن جانے کا خوف نہیں۔ اُسے اس چیز کا علم ہی
نہیں کہ گھر سے بھاگ کر جب وہ سڑک پر اور زمانے کے رحم و کرم پر ہوگا تو
اُسے کیسی تکلیفیں اور مشکلات برداشت کرنا پڑیں گی۔ تاہم یہاں پر ہمیں اس
تکلیف دہ پہلو کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ اگر بچے گھر میں والدین یا
سوتیلے والدین کے غیر مناسب روئیوں اور سختیوں کا شکار ہیں تو شائد اُنہیں
گھر سے بھاگنے والی آپشن گھریلو دباؤ اور تناؤ سے بچانے کا ذریعہ دکھائی
دیتی ہے۔
آج والدین کیلئے سب سے ضروری ہے کہ بچوں کو دست بنائیں۔ بچپن کے سال معصوم
بھی ہیں اور آزادی کیلئے بے تاب بھی،جس کیلئے بچوں کو سننا ضروری ہے۔
والدین کے یک طرفہ فیصلے بچوں کو اپنے فیصلے لینے پر مجبور کرتے ہیں۔
والدین کا اپنے بچوں کے دلوں میں جھانکنا ضروری ہے۔ اُن کے دل کا راز لیں،
اُنہیں خوف اور غصے کی فضا اور ماحول میں مت پالیں، اُن کی ناکامیوں پر بھی
اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔ کیونکہ دباؤ، خوف اور غصے کے زیر اثر پلنے والے
بچوں کے ساتھ ساتھ ایسے بچے بھی گھر سے بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جنہیں
گھرسے اپنی ناکامی پر ڈانٹ ڈپٹ یا مار کا خوف ہوتا ہے۔
بطور والدین ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ وہ بچے جو مسلسل تناؤ یا کسی دباؤ
کا شکار ہیں، وہ تھک جاتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کا یقین ہونے لگتا ہے کہ وہ
اس ماحول کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا اُن کم سِن بچوں کو اُس
مسئلے کو حل کرنے سے گھر سے دوڑنا زیادہ آسان لگتا ہے انہی بچوں میں کوئی
بچی دعا زہرہ ہوتی ہے کوئی نمرہ کاظمی۔
یہ بات غور طلب ہے کہ دعا زہرہ یا نمرہ کاظمی جیسی بچیاں گھر سے بھاگنے کی
کیا وجہ پیش کرتی ہیں۔ دعا زہرہ اس بات کا اقرار کر چکی ہیں کہ اُس کی تین
سال قبل پب جی گیم کے ذریعے ظہیر سے دوستی ہوئی تھی۔ وہ دوستی محبت کی شکل
میں بدلی اور نتیجہ پورے پاکستان نے دیکھا۔ اس طرح کے واقعات اور محبت کی
کہانیوں میں اگر والدین براہ راست ذمہ دار نہیں تو بھی وہ قصور وار ضرور
ہیں۔ چھوٹی عمر میں بچوں کو موبائل فونز اور سوشل میڈیا تک رسائی اب بالکل
عام بات ہوچکی ہے۔ آج والدین سے زیادہ بچوں کو فونز کا استعمال آتا ہے۔ ٹک
ٹاک سنیپ ویڈیوز، سنیپ چیٹ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئیٹر والدین بچوں کو
کہاں کہاں تک چیک کریں گے اور کیسے چیک کریں۔ بچے ہسٹری ڈلیٹ کر نا تک جان
گئے ہیں۔
بات آرکتی ہے تعلیم و تربیت پر۔ بچوں کی تربیت ایسی کریں کہ اُسے اچھائی
اور برائی کا فرق بتائیں۔اُس سے دوستی کارشتہ قائم کریں۔ والدین کیلئے
ضروری ہے کہ وہ بچوں کا اعتماد جیتیں اور بچوں کوبھی اس بات کا یقین دلائیں
کہ اگر بچے اُن سے کوئی بات شیئر کریں گے تو وہ اُنہیں ڈانٹیں گے نہیں۔
والدین کو بچوں کا بھروسہ جیتنا ہوگا، تبھی اُن کی جیت ہے۔ والدین کو چاہیے
کہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ بچوں کے ساتھ کیمسٹری اور
دوستی استوار کرنا بھی ایک ہنر ہے، ایک آرٹ ہے۔ والدین اور بچوں کا بات چیت
کا رشتہ ہرگز ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب آپ اپنے بچوں سے
دوستی لگالیں گے۔ بچوں کے اندر کی ہچکچاہٹ کو دور کریں گے۔ بچوں کے اندر
بات کرنے کے ڈر اور خوف کو دور کریں ۔ والدین بچوں کیلئے رہنما ہیں۔ والدین
اپنے بچوں کے مجسمہ ساز ہیں۔ وہ جیسا اُنہیں بنانا چاہیں گے، وہ ویسا ہی
بنیں گے۔
والدین سے اچھے تعلقات کی کمی کو دور کرنے کیلئے بہت سے بچے گھر سے باہر
تعلقات استوار کر لیتے ہیں۔ گھر کے باہر سے ملنے والی مصنوعی خیر خواہی اور
محبت بچوں کو نفسیاتی طور پر زیادہ متاثر اور خوش کرتی ہے۔ ہمارے آس پاس
غالباً کہیں نہ کہیں کسی دعا زہرہ یا نمرہ کاظمی جیسی بچیوں کو گھر سے ملنے
والی کم توجہی دوسروں سے ملنے والی مصنوعی یا وقتی محبت اور خوشی کی طرف
راغب کر رہی ہے۔ لہٰذا والدین کو ہر پہلو سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ سب والدین
سے گزارش ہے کہ بچوں سے خوش اسلوبی سے پیش آئیں اور اُن کے اخلاق اور کردار
کو اس قدر مضبوط بنائیں کہ وہ نہ صرف آپ کے بلکہ پورے معاشرے کیلئے مثالی
بچے بنیں۔
اگر قائداعظم اس خطے میں ایک نئی قوم بنا سکتے ہیں تو ہم گھر کے تین چار
بچوں کو با کردار کیوں نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہیں تو
قصور وار دعا زہرہ نہیں بلکہ والدین خود ہیں۔
|