مفلسی اے مفلسی

ٹھٹھرتی یخ بستہ سرد شام میں ایک پاگل آوارہ ،سادا سا شخص ،رات کے اس گہرے اندھیرے میں جیسے تیری یادوں کے سورج کے ڈوب جانے پر سوچ میں ہے

اس کے لیے جیسے سرد ہوا کا ہر جھونکا تیری بے وفائی کے زخم پر مرہم کے جیسا ہے جو اس کے خیال میں جیسے بہت ہی اچھا ہے لیکن قریب سے گزرنے والے کسی سادہ لوح انسان کے لئے یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے

کہ یہ ایک نشے کا عادی اور جان و جہان دونوں سے عاری شخص ہے

لیکن

جب میں ایسے کسی شخص کو دیکھتا ہوں تو گمان گزرتا ہے کہ پکی بات ہے اسے بھی محبت نے محبت سے ٹھکرایا ہے اور اسی محبت کی شدت کی بدولت صاحب کا یہ حیلہ بن گیا ہے اور یا یہ شخص کسی واردات کے چکر میں ہے

شام کو گھر آیا تو اسے گلی میں دیکھا اور اب سونے ہی لگا تھا کہ کھڑکی سے نظر پڑی تو میں بھی گلی میں نکل آیا چنانچہ

گہری تاریک رات میں روڈ کے بیچوں بیچ چلتے چلتے ٹھوکر کھائی تو محسوس ہوا یہ کوئی پتھر یا کوئی دیوار نہیں بلکہ وہی شخص بیٹھا دھیمی آواز میں درود پاک کا ورد اس انداز سے کر رہا ہے کہ جب اس کو ہلایا اور پوچھا کہ میاں رات کی گہرائی تاریکی میں اس وقت یہاں تو اس نے جو جواب دیا اس سے میری آنکھوں پر لگی غلط عینک کو توڑ دیا اور میں اس کے جواب پر تڑپ سا گیا اس نے کہا مجھے پتا نہ چلا یہ کب ہوا، یعنی اس قدر گم ہو گیا کہ دوپہر سے شام اور شام سے رات کا یہ پہر ہو گیا ۔ میں نے حیرانی سے جواب یہ میاں یہ کیسا جواب ہوا بھلا

وہ ہنس کر بولا صاحب جائیے آپ آرام کیجئے اپنے گھر ، میرا تو اصل وقت ہی اب شروع ہوا ہے میں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا مطلب بولا جائیے صاحب آپ نہیں سمجھیں گے ، مجھے فلاں صاحب سے ملنا ہے اور بتایا گیا ہے وہ صبح سے پہلے آ جائیں گے

میں اس کے بارے میں سوچتا اپنے گھر کے گیٹ کی جانب بڑھا اور سیکیورٹی گارڈ کو تلقین کی کہ زرا محتاط رہنا چنانچہ مجھے تو پہلے ہی ان صاحب کی باتوں نے حیران کر رکھا تھا اور میں فکر مند بھی تھا کہ یہ آدمی دوپہر سے یہاں براجمان ہے آخر ماجرہ کیا ہے

میں گھر آ کر کمرے کی کھڑکی سے ٹیک لگا کر اس کو چھپ کر دیکھنے لگا اسی دوران میری آنکھ لگ گئی اور صبح جب اٹھا تو دیکھا وہ آدمی وہاں نہیں تھا میں بھاگتا ہوا سیکیورٹی گارڈ کے پاس گیا اور اس کا دریافت کیا ، کیا وہ جن صاحب سے ملنا چاہتے تھے ان سے ملاقات ہو گئی اور کیا معاملہ تھا ان کا

سیکیورٹی گارڈ نے بتایا تو جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی بولا صاحب آپ کی بھی آنکھ لگ گئی اور ادھر اس درویش کی بھی آنکھ لگ گئی آپ کو اس نیند نے سکون دیا ادھر اس کی آنکھ ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی

مگر میرے ذہن میں وہی سوال بار بار پھر کھٹک رہا تھا کہ یہ کون تھا ، یہاں کیوں بیٹھا تھا ، اور اتنی رات ہونے کے باوجود بھی گھر کیوں نہیں گیا

میں نے یہ حالات سیکیورٹی گارڈ سے شئیر کیے تو اس نے کہیں سے دریافت کروایا تو پتا چلا یہ ایک سفید پوش شخص تھا جو اپنی جھونپڑی میں بچوں سے وعدہ کر کے نکلا کہ آج آپ سب کے جی بھر کے کھانے کے بندوبست کو جا رہا ہوں چنانچہ جب وہ اس جگہ پہنچا جہاں وہ کام کرتا تھا تو معلوم ہوا کہ وہ ٹھیکیدار جس کے پاس وہ کام کرتا تھا وہ فراڈ کر کے مالک کے پیسوں سمیت لیبر کے پیسوں پر بھی ہاتھ صاف کر گیا ہے

یہ شخص وہاں سے چلا تو کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ جاؤں وہاں تمہاری بات سنی بھی جائے گی اور تمہاری مدد بھی کچھ نہ کچھ ہو جائی گی چنانچہ وہ موجود پتے پر آ پہنچا تو معلوم ہوا صاحب ابھی گھر نہیں آئے کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہیں صبح سے پہلے لوٹ آئیں گے

چنانچہ یہ شخص یہاں بیٹھ گیا بہت سے لوگوں نے دریافت کیا آپ کون ہیں یہاں کیسے بیٹھے ہیں تو فقط اتنا کہا کہ مجھے فلاں صاحب سے ملنا ہے

یہ ساری داستان سن کر میرے ضمیر نے میرے منہ پر زور دار طمانچہ مارا اور مجھے میری ہی سوچ پر میرا اندر کوسنے لگا

تب کہیں جا کر احساس ہوا کہ اس نے کیوں کہا تھا آپ جا کر اپنے گھر آرام کیجئے اور میں بھی کتنا بے حس ہوں جس نے بنا کچھ دریافت کیے اس کے بارے کیا کیا سوچا

آج بھی جب وہ منظر یاد آتا ہے تو اشکبار ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں بروز قیامت اگر اس سفید پوش شخص نے رب العالمین کے سامنے یہ کہ دیا یا میرے مولا میرے بچے تین دن سے بھوکے تھے اور مجھ بے بس سے کچھ دریافت کرنے کی بجائے میرے بارے کیا کیا سوچا گیا
 

Basit Adeeb
About the Author: Basit Adeeb Read More Articles by Basit Adeeb: 3 Articles with 4206 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.