دولت کی ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ
وہ مسلسل منشیات کے کاروبار کو مختلف طریقوں سے بڑھاوا دے کر نوجوان نسل جس
میں 15 سال سے لیکر ادھیڑ عمر تک کے لوگ شامل ہیں کو جسمانی و اخلاقی،
اقتصادی و معاشرتی ہر اعتبار سے نشے کی لعنت میں مبتلا کرکے بد حالی کی
آخری سطح تک پہنچانے کے درپے ہوچکے ہیں، مختلف خورد و نوش کی چیزوں(مثلاً
چاکلیٹ وغیرہ) میں مخفی طور پر نشہ آور مادے شامل کر کے نوجوان نسل کو اپنے
نیٹورک کے ذریعے کالج اور یونیورسٹیوں کے لڑکے اور لڑ کیوں کو اس کاعادی
بنایا جاتا ہے اوراس طرح ان کو منشیات کا خوگر کرکے ہمارے معاشرے کو
انتہائی سرعت سے انکے اخلاص، اخلاق اور تیزیبب کو منہدم کیا جا رہا ہے جس
میں ہمارے اداروں کے دلال جو اس قوم کے دشمن ہیں اپنا مکروہ اور غیر قانونی
کردار ادا کر کے پوری قوم کے نو جوانوں کو اس لت میں مبتلا کرنے کے مجرم
ہیں۔ اس وقت پور ی دنیا میں منشیات کے استعمال کا جو عام رواج چل پڑا ہے،
خاص طور سے نوجوان نسل جس بری طرح سے نشے کی لت میں مبتلا ہورہی ہے اور یہ
ہر صاحب عقل و فکر کے لئے بے حد تشویش ناک صورت حال ہے، تمام احتیاطی
تدابیر فیل ہو چکی ہیں اور منشیات کے استعمال کی شرح میں کمی ھونے کی بجائے
مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لا قانونیت، اداروں کی ملی بھگت اور دولت کے
لالچ نے انکی آنکھوں پر بے حیائی، بے شرمی اور لالچ کی ایسی پٹی باندھی ہے
کہ انہیں قوم کی نوجوان نسل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ دولت کے غلام جس
میں بڑے بڑے سیاستدان بھی ملوس ہیں اور وہ قانون کے رکھوالو کی آشیر باد سے
اپنے نفس کے غلام بن چکے ہیں اور وہ سمجھنے سے محروم ہیں، اور سمجھنے کی
کوشش سے عاری ہیں اورعمل خیر کی توفیق سے نا آشنا ہیں اور وہ بدستور اپنی
مجرمانہ غفلتوں میں مبتلا ہیں اور دولت کی ہوس معاشی دیوالیہ پن اور سماجی
برباد ی انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے۔ نشے کی شکل میں ایک وحشت اور بربریت مسلط
کی جا چکی ہے جو سماج کو مزید بربادی اور تباہی میں غرق کر رہی ہے۔ دوسری
جانب پاکستان اور خطے کی دوسری طاقتوں کی سامراجی مداخلت بھی عوام کے لیے
زہر قاتل ہے جس میں اپنے سٹریٹجک مفادات کے لیے اس سرزمین کو نشے کی فروخت
کیلئیاستعمال کیا جاتا ہے لیکن جب عوام کی مدد کا معاملہ آتا ہے تو سرد
مہری، سرحدی پابندیاں اور شدید دھوکے بازی اور فریب نظر آتے ہیں۔ ان تمام
طاغوطی طاقتوں کے لیے پاکستان کے نوجوان بچے اور بچیاں ان کی سامراجی
پالیسیوں کے لیے خام مال سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے اور وہ اس ملک کی نو
جوان نسل سے انکی صحت سے ہولی کھیلنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سارے عمل میں
پاکستان میں جاری اس غیر قانونی دھندے اور گہرے ہوتے تضادات کا جائزہ لینا
ضروری ہے۔ پولیس سمیت دیگر ریاستی اداروں کو اسی طرز پراپنی منفعت کیلئے
چلایا جا رہا ہے لیکن اس تمام تر سرمایہ دارانہ نظام کو پسماندگی اور
رجعتیت کے پردے میں لپیٹ کر مزید خونخواری اور وحشت اور غیر انسانی روایات
مسلط کی جا رہی ہے تاکہ اپنے اقتدار اور دولت کو اس مغلظ اور نشے کی اس
لعنت کے جبر کے ذریعے مستحکم کیا جا سکے اور اپنی حرام کی دولت کو دگنا
چوگنا کیا جا سکے۔ یہ تاریخ کا ایک نہایت ہی اہم موڑ ہے۔ ہم اس دور سے گزر
رہے ہیں جب جاگیر داری کی بنیادیں سرمایہ داری کے ہاتھوں کھوکھلی ہو رہی
ہیں اور سامراجی طاقتیں سرمایہ داری کو بچانے کیلئے نوجوان نسل کو مختلف
طریقوں سے نشے میں مبتلا کرکے اسے دوام بخشنا چاہتی ہے جس کے لئے اسنے
پاکستان جیسے معاشی طور پر غیر مستحکم ملک کے غدار سیاستدانوں، سرمایا
داروں اور اداروں کے بے غیرت، بے ضمیر اور بے حس کمینوں کو خرید رکھا ہے۔
بے کاری، بے روزگاری، غربت، تعلیم سے عاری معاشرہ اور کسی مثبت، صحت مند
اور مفید مشغولیت کا نہ ہونا ہماری نوجوان نسل کوبگاڑ نے، بے راہ روی، قتل
و غارت گری، چوری، ڈکیتی اور ہر قسم کے غیر قانونی اور شیطنت کی طرف پر لے
جانے کا بہت طاقت ور ذریعہ ہے جسے استعمال کر کے ہماری آنے والی نسل کو
زہنی اور جسمانی طور پر ناکارہ اور اپاہج کرنے کی ایک مذموم سازش ہے۔
پاکستان میں روزانہ 700 افراد منشیات کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ماہانہ 21
ہزار اور سالانہ 2.5 لاکھ افراد اِس زہر یلے نشیکا نشانہ بن جاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70 لاکھ
سے زیادہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں اور یہ عداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ان میں کیمیکلز والے نشے کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں ہیروئن،
کوکین اور آئس کا نشہ شامل ہے۔ دنیا میں 41 ایسے ملک ہیں جن کی آبادی ہمارے
یہاں کے منشیات کے عادی افراد سے بھی کم ہے۔ ملک بھر میں ہر سال، آیس کا
نشہ، چرس سے بھرے سگریٹ اور 44 ٹن ہیروئن استعمال ہوتی ہے یہ امریکا اور
یورپ میں استعمال ہونے والی ہیروئن سے تین گنا زیادہ ہے۔ نشے میں مبتلا
زیادہ تر نوجوان ہیں اور سب کی عمریں 24 سال سے بھی کم ہیں جن میں لڑکے اور
لڑکیاں شامل ہیں۔ یہ کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیاں بڑی بڑی شاہراہوں پر
کیوں کھڑی ہوتی ہی کیا کبھی کسی نے سوچا۔ خواتین کا خود بخود رجحان اس طرف
ہو جائے ایسا ممکن نہیں تاہم ’کلاس فیلوز، ساتھ کام کرنے والوں، بوائے
فرینڈز یا جو بعد میں شوہر بھی بن رہا ہے وہ ان کو اس طرف راغب کرتا ہے۔
محبت میں نا کامی، امتحان میں فیل ہو جانا، وغیرہ اسکے بڑے بڑے اسباب ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں یونیورسٹی کے طالب علموں اور طالبات میں کرسٹل،
آئس و دیگر نشوں کا استعمال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن
بھی اس کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے جبکہ حکومتِ سندھ نے بھی پچھلے دنوں
اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی کے خلاف
کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا جو اعلان تک محدود رہاکہ اس میں بڑے بڑے گرگے
شامل تھے۔
نشے میں مبتلایہ افراد اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے کسی بھی حد کو عبور کر
جاتے ہیں۔ اِن افراد میں کچھ کا تعلق انتہائی تعلیم یافتہ اور امیر گھرانوں
سے بھی ہے۔ ملک بھر میں زیادہ تر قائم طبی مراکز کا حال تو یہ ہے کہ اِن
مراکز کا کام تو منشیات سے عادی افراد کو منشیات سے دور رکھنا ہے لیکن
حقیقت تو اس کے بلکل برعکس ہے۔ اِن مراکز میں نشہ کے عادی افراد کو باآسانی
نشہ آور ادویات اور منشیات فراہم کر دی جاتی ہیں اور پھر اِن افراد کو اپنے
مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو آنے والے
کچھ برسوں میں پاکستان کے منشیات کے عادی افراد کی تعداد دنیا کے 50 ملکوں
کی آبادی سے بھی تجاوز کرجائے گی۔ اور یہی عالم رہا تو ملک بھر میں اتنے
افراد دہشت گردی میں ہلاک نہیں ہوئے ہونگے جس قدر اِس منشیات کے زہر سے
ہلاک ہوں گے۔
جو بچے سکول کے زمانے سے شراب پینا شروع کر دیتے ہیں اس کے بعد چرس پر آ
گئے اور اگلا قدم ’ڈرگ آف چوائس ہوتی ہے، جو ہیروئن اور کرسٹل ہوتی ہے جس
سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور اپنے نشے کو پورا کرنے کیلئے
یہ کچھ بھی کرتی ہیں۔ پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لیے اینٹی
نارکوٹکس فورس کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے جس کو چاروں صوبوں میں بحالی
سینٹر بھی قائم کرنے تھے، کراچی میں یہ سینٹر ماڑیپور میں موجود ہے۔ ان سے
مسلسل رابطے کے باوجود وزارت اور ہسپتال نے اپنا موقف بیان نہیں کیا کہ یہ
لوگ اپنے کا م میں مخلص نہیں اور کرپٹ ہیں۔ اے این ایف سینٹر میں جانے والے
بتاتے ہیں کہ ’ایک تو وہاں داخلے کے لیے پانچ، چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے
اور وہاں جو ڈاکٹر ہے وہ لگتا ہے جیسے جانوروں کا ڈاکٹر ہو، انسانیت سے گرا
ہوا برتاؤ کرتا ہے۔ تشدد مار پیٹ بدتمیزی اور گالم گلوچ کرتا ہے اور یہ عام
سی بات ہے۔ اگر کوئی منشیات کی لت کا شکار ہو جائے تو اس کو ترک کرنا بھی
ایک بہت بڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ کہ ’نشئی عام زندگی نہیں گزار سکتے بلکہ
سوچ سمجھ کر زندگی گزارنی ہوتی ہے، بہت غصے میں رہتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں
کو فوری دماغ میں بٹھا لیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا اس کو بہانہ بنا
کر دوبارہ نشے کی طرف آ جاتے ہیں۔ انہیں پیار محبت اور نگہداشت کی اشد
ضرورت ہوتی ہے۔۔ اگر ہمت کریں تو ان کے سامنے یہ نشہ رکاوٹ نہیں بن
سکتا،’نشے سے دستبرداری کا عمل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، اس عرصے میں ذہن میں
خودکشی کے خیالات بھی آتے ہیں کیونکہ کچھ لوگ اس تکلیف کو برداشت نہیں کر
پاتے۔ دوسرا مرحلہ علاج کا ہے جس میں ان کا نفسیاتی مشاہدہ اور معاونت کی
جاتی ہے۔
صحت کے تحقیقی جریدے لینسٹ نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ پاکستان اپنے
بحالی سینٹروں کی تعداد بڑھائے تاکہ متاثرہ افراد میں سے زیادہ سے زیادہ اس
سے مستفید ہوں مگر شومئی قسمت کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ حکمرانوں
کو اپنی گدی بچانے کی تشویش لا حق ہے نہ کہ اسے اپنے عوام کے مسائل ختم
کرنے کا اراک یا ہھر وہ اس میں مخلص ہوں۔
|