ڈاکٹر رادھاکرشنن کسی تعارف کے
محتاج نہ ہو کرہندوستان ہی نہیںبلکہ پوری دنیا میں اپنی الگ شہرت رکھتے تھے
۔وہ بہت بڑے فلاسفر تھے۔ یہ کہنا کہ وہ ہندوستان کی شناخت تھے تو کوئی غلط
نہیں ہوگا۔ بنیادی طور پر استاد ہونے کی حیثیت سے ان کے جنم دن 5 ستمبر کو
یوم اساتذہ کے طور پر مناکر ہم انہیں عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ڈاکٹر سروپلی
رادھاکرشنن ہندوستانی سماجی ثقافت کے دلدادہ ایک ماہرتعلیم، عظیم فلسفی اور
عظیم مقرر تھے۔وہ آزادہندوستان کے دوسرے صدر تھے۔ ڈاکٹر رادھاکرشنن نے اپنی
زندگی کے 40 اہم سال ٹیچر کے طور پرگزار دئے۔ ان میں ایک لائق ٹیچر کے سارے
گن موجود تھے۔ سن 1962 میں جب وہ صدر بنے تھے ، اس وقت کچھ شاگرد اوران کے
کچھ مداح ان کے پاس گئے تھے۔ اسی وفد سے بات چیت کے بعدانہوں نے اپنا جنم
دن یوم اساتذہ کے طورپر منانے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کا ہی نتیجہ ہے کہ
سارے ملک میں ڈاکٹر رادھاکرشنن کی پیدائش کے دن 5 ستمبر کویوم اساتذہ کے
طور پر منایا جاتا ہے۔ڈاکٹر رادھاکرشنن تمام دنیا کو ایک تعلیم گاہ مانتے
تھے۔ ان کی سوچ تھی کہ تعلیم کے ذریعے ہی انسانی دماغ کابہتراستعمال کیا
جانا ممکن ہے۔ اسی لیے تمام دنیا کو ایک اکائی سمجھ کر ہی تعلیم کا انتظام
کیا جانا چاہئے۔ ایک بار تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر سروپلی رادھاکرشنن نے کہا
تھا کہ انسان کو متحدہونا چاہئے۔ وہ طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ وہ
اخلاقی اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ وہ جس موضوع کو پڑھاتے تھے ،
پڑھانے کے پہلے خود اس کا اچھی طرح مطالعہ کرتے تھے۔ فلسفہ جیسے سنجیدہ
موضوع کو بھی وہ اپنی طرز سے آسان اور دلچسپ بنا دیتے تھے۔ان کی یوم پےدائش
ہر سال 5 ستمبر کو” یوم اساتذہ“ کے طور پر منائی جاتی ہے۔ ان دنوں جب
استاداور شاگرد تعلقات کی پاکیزگی کو گرہن لگتا جا رہا ہے ، ان کے افکار
ایک نئی بیداری پیدا کر سکتے ہیں۔
ہندوستان میں صدیوں سے کسی نہ کسی عہد ساز شخصیت کے پیدا ہونے کی روایت چلی
آ رہی ہے۔اسی سیریز میں ڈاکٹر سروپلی رادھاکرشنن بھی ایک اہم کڑی ہیں۔ ایک
استاد ہونے کے بعد بھی پوری دنیا میں جلوہ،اسکے بعد بھی ایک استاد، شاید
یہی ان کی پہچان تھی۔ زندگی کے بے شمار اتار چڑھاؤ کو جھیلتے ہوئے ڈاکٹر
رادھاکرشنن مسلسل آگے بڑھتے گئے۔ ایسے استاد کی شخصیت کو کتابی شکل میں
سمیٹنا ناممکن کام ہے۔ پھر بھی بہت سے مصنفوں نے ان کی مکمل زندگی کو کتاب
میں سمیٹنے کی قابل ستائش کی کوشش کی ہیں جس کے مطالعہ سے ہم اور آپ ان کے
عمل ،کردار اور شخصیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔5 ستمبر کو ہر سال ملک
بھر میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یوم اساتذہ کا
انعقاد کیوں کیا جاتا ہے؟ یوم اساتذہ ملک کے عظیم فلسفی اور ماہر تعلیم
ڈاکٹر سروپلی رادھاکرشنن کے یوم پیدائش کی یاد کے طور پر منایا جاتا
ہے۔ڈاکٹر سروپلی رادھاکرشنن نہ صرف ماہر تعلیم تھے ، بلکہ وہ عظیم سیاسی
لیڈر بھی تھے۔ وہ آزاد ہندوستان کے پہلے نائب صدر بنائے گئے۔ ڈاکٹر راجندر
پرساد کے بعد 1962 میں انہیں ملک کا دوئم صدر ہونے کا اعزاز ملا۔5 ستمبر ،
1888 کو چنئی سے تقریبا 200کلومیٹر جنوب- مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے
ترو تانی میں ڈاکٹر رادھاکرشنن کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام
سروپلی وی راماسوامی اور ماں کا نام محترمہ سیتا جھا تھا۔ راماسوامی ایک
غریب برہمن تھے اور تروتانی قصبے کے زمیندار کے یہاں ایک عام ملازم کی طرح
کام کرتے تھے۔ڈاکٹر رادھاکرشنن اپنے والد کی دوسری اولاد تھے۔ ان کے چار
بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی ۔چھ بہن- بھائیوں اور ماں- باپ کو ملا کر آٹھ
ارکان کے اس خاندان کی آمدنی انتہائی محدود تھی۔ اس محدود آمدنی میں بھی
کسی طرح تعلیم حاصل کرکے اور خود کو اس مقام پر لا کرڈاکٹر رادھاکرشنن نے
ثابت کر دیا کہ صلاحیت کسی کی مرہون منت نہیں ہوا کرتی ہیں۔ انہوں نے نہ
صرف ماہر تعلیم کے طور پر شہرت حاصل کی ، بلکہ ملک کے سپریم عہدے ’صدارت‘
کے عہدے پر فائز بھی ہوئے۔علم اور تعلیم کے تئیں ڈاکٹر رادھاکرشنن کے دل
میں کافی جگہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اے سے لے کر آخری کلاس تک انہوں نے فرسٹ
کلاس ہی حاصل کیا۔ علم اور تعلیم سےان کے عشق کی وضاحت 23 جنوری ، 1957 کو
کلکتہ یونیورسٹی کی صدی تقریب کے موقع پر دیئے گئے ڈاکٹر رادھاکرشنن کی
تقریر سے واضح ہوتا ہے۔اگر ہم دنیا کی تاریخ کو دیکھیں ، تو پائیں گے کہ
تہذیب کی تعمیر ان عظیم لوگوں اور سائنسدانوں کے ہاتھوں سے ہوئی ہے ، جو
خود غور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، جو ملک اور زمانہ کی گہرائیوں میں داخل
ہوتے ہیں ، ان کے راز کا پتہ لگاتے ہیں اور اس طرح سے حاصل علم کا استعمال
عالمی کریڈٹ یاعوامی بہبود کے لئے کرتے ہیں۔ کوئی بھی آزادی تب تک سچی نہیں
ہوتی ، جب تک اسے اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ کسی بھی مذہبی عقائد یا
سیاست کو حق کی تلاش میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہئے۔
لہذٰا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے افکار،تعلیمات اور خیالات سے
استفادہ حاصل کرکے اپنی تعلیم اور طرز زندگی میں ایک ایسا انقلاب لائیں کہ
خود ہمیں فخر محسوس ہو اور اسی کے ساتھ سماجی اور تعلیمی میدان میں ہمارا
ملک دنیا پر چھا جائے۔ |