روایات پر نازاں،حقائق سے نابلد
فرد اور ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی میں تعلیم کاکلیدی کردار ہوتاہے۔ کسی
بھی ملک کے باشندوں کی خوش حالی سے اس ملک کی خوش حالی کا بخوبی اندازہ
لگایا جاسکتا ہے۔ صدیوں سے ریاستیں اپنی غرض کے بندوں کی تیاری کے لیے
تعلیم کو ایک کارگر وسیلے کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہیں۔گویا کہ تعلیم
کو زمانہ قدیم سے ہی سیاسی اغراض و مقاصد اور نظام جہاں بانی کے لیے
استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ تعلیمی نصاب کی تبدیلی ،اہداف و
مقاصد کا تعین بھی سیاسی الٹ پھیر کاشکار ہوتے رہے ہیں۔دنیا شاہد ہے کہ
انسانیت سازی کے بجائے سیاسی بازی گروں نے تعلیم کو اپنے مفادات حاصلہ کے
لیے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔فی زمانہ جنگیں ، ہتھیاروں
کے سہارے نہیں بلکہ ذہن سازی اور پروپگنڈے کے تحت لڑی اور جیتی جارہی
ہیں۔آج کل عالمی سطح پر تعلیم کو ذہن سازی کے لیے ایک موثر ہتھیار کے طور
پر استعمال کیا جارہاہے ۔ہردور میں ذہن سازی کے عمل میں تعلیم کا بہت
بڑادخل رہا ہے۔ ملک کے تعلیمی نظام میں اگر چہ کہ چند مثبت ا وروشن مثالیں
آج بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی دنیا کے مختلف گوشوں سے اس پر لگاتار
تنقیدیں جاری ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار کی جرات نہیں کرسکتاہے کہ ہمارا
تعلیمی نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے پستی کا شکار ہے۔آج بھی ملک کی آبادی کا
ایک بہت بڑا حصہ مطلوبہ تعلیمی سہولیات سے محروم ہے۔اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے
والوں طلبہ کی کثیر تعداد بہتر مواقعوں،ملازمت اور پرکشش معاوضوں کے پیش
نظر بیرون ملک نقل مکانی کو ترجیح دے رہی ہے۔یہ بات درست ہے کہ حکومت تعلیم
پر توجہ دے رہی ہے اور ملک کے ہر بچے کو بنیادی حق کے طور پر تعلیم فراہم
کرنے کی کوششوں میں جٹی ہے۔ یہ کوششیں باآوربھی ہو رہی ہیں جس کی بدولت شرح
خواندگی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اس کے باوجودہمارے تعلیمی نظام اور
تعلیمی عمل میں ابھی کئی ایسی رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں عبور کرنا باقی
ہے۔صرف شرح خواندگی میں اضافہ، کامیابی اور معیار کی ضمانت نہیں ہوسکتا
۔کیا ہم منزل کی جانب رواں دواں ہیں یا پھر صرف سفر کوہی منزل پرترجیح دے
رہے ہیں۔اس حقیقت کو جاننا بے حدضروری ہے اس کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام
کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں ہمارے تعلیمی نظام میں پائے
جانے والی چند خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
روایات پر نازاں،حقائق سے نابلد
آج بھی ہمارے ملک میں طلبہ کی قابلیت کو ان کے حاصل کردہ نمبر اور درجات کی
کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ 90% سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو ’’ذہین
وغیر معمولی ‘‘ سمجھنا ایک عام بات ہے۔ اوسط نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو
عمومی طور پر ہم کمزورہی سمجھتے ہیں ۔اس پر مستزاد ’’ ان کاتو کوئی خاص
مستقبل نہیں ہے‘‘جیسا جملہ بھی ان پر جَڑدیاجاتاہے۔ نوآبادیاتی
آقاؤں(انگریزوں) کا تیار کردہ نصاب تعلیم آج بھی بغیر کسی مثبت وصحت مند
تبدیلی کے اپنی جگہ قائم و برقرار ہے۔یہ نظام تعلیم طلبہ کی ہمہ جہت ترقی
کے بجائے اچھے نمبر حاصل کرنے پرہی زیادہ زور دیتا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی
کے دورمیں طلبہ کو کتابی علم پہنچا کر مطمئن ہوجانا دانشوری سے بعید کام
ہے۔مٹھی بھر طلبہ کی ستائش بجاسہی لیکن اوسط درجے کے طلبہ کی صلاحیتوں کو
دیوارسے لگانا ملک کے مستقبل کو دیوار سے لگانے کے برابر ہے۔
درس و اکتساب میں دلچسپی کا فقدان
آج بھی ہمارا 90% تعلیمی نصاب نظریاتی (Theoretical)اصولوں پر مبنی ہے
۔عملی اکتساب وتحقیق کے لیے ہمارے نصاب میں بہت کم گنجائش پائی جاتی ہے۔
تنقیدی فکر ،تخلیقی درس و اکتساب کو ہمارے نصاب میں بہت کم جگہ دی گئی
ہے۔آج بھی طلبہ ایک مخصوص نصاب ونظام کے تحت بندھے ہیں۔انھیں نصاب سے باہر
جھانکنے،روایات کے برخلاف سوچنے اور تخلیقی فکر و اسلوب اختیار کرنے کی
اجازت ہے اور نہ ایسا کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں
سے نظام تعلیم کومستعار لے کر اسے من و عن راہ دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی
اورکا کوٹ مانگ کرپہننا۔ ہمارے تدریسی طریقے نہ صرف جامد ہیں بلکہ تنوع سے
بھی عاری ہیں۔ اس میں زندگی کی رمق، چستی پھرتی اور سبک رفتاری بہت کم
دکھائی دیتی ہے۔آٹھ گھنٹوں تک بلاوقفہ درس و تدریس کی انجام دہی نے جہاں
اساتذہ کے تدریسی جذبے اور کارکردگی کو مجروح کیا ہے وہیں تعلیمی اداروں کے
طویل اوقات اورکمرہٗ جماعت کے تھکا دینے والے طویل لیکچرس سے طلبہ بھی
اکتاہٹ کا شکار ہیں۔تعلیمی اداروں کے طویل اوقات کار اورروایتی طریقہ ہائے
درس کی وجہ سے طلبہ دلچسپ اور حقیقی اکتساب سے دور ہوتے جار ہے
ہیں۔امتحانات میں بہترین درجے اور نشانات حاصل کرنے کے باوجودہمارے بچوں کا
شرح اکتساب تسلی بخش نہیں ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں پڑھانے کا ایک دلچسپ
انداز نہ صرف طلبہ میں حقیقی اکتساب کے فروغ کا باعث ہو گا بلکہ ان میں
مختلف مضامین و موضوعات کو عملی زاویوں سے دیکھنے سیکھنے،تحقیقی،تخلیقی اور
تنقیدی فکر پیدا کرنے میں معاون بھی ثابت ہوگا۔
نہ کھیل نہ کود، صرف پڑھائی اور پڑھائی
ہمارے ملک میں تعلیمی سال (اکیڈمک ائیر) کے اختتام پر بورڈ امتحانات
انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ان امتحانات میں تسلی بخش نشانات نہ حاصل کرنے
سے طلبہ کو ذہنی اذیت،پریشانی،تذلیل اور بے اعتمادی کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ہمارا معاشرہ ،والدین اورتعلیمی ادارہ جات کھیل، فن کاری، دستکاری
اورغیر نصابی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں ۔ نصابی مضامین(تعلیمی
مضامین) کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے کہ ارباب مجازاورتعلیمی اداروں کے ذمہ
داران اکثر کھیل کود اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے مختص پیریڈز کو
بھی نصاب کی تکمیل بلکہ بعض مرتبہ تو معلنہ مدت سے قبل ہی نصاب کی تکمیل کے
لیے انھیں استعمال کرتے ہیں۔ہمیں ازسر نو حقیقی درس واکتساب کی تعریف و
تفہیم اور عمل سے آگہی حاصل کرنے ضرورت ہے۔اکتساب ایک تخلیقی عمل ہے ۔حقیقی
اکتساب کے زیر اثر طلبہ تخلیقی و عملی نتائج کی روشنی میں اپنے معلومات کو
بروئے کار لائیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی تمام تر قوتوں کو موثر
اکتساب(سیکھنے) پر لگائیں نہ کہ نمبر و درجوں(گریڈس) کی دوڑ میں اسے ضائع
کریں۔اس کام کو محکمہ تعلیم،تعلیمی اداروں اور والدین کوساتھ مل کر انجام
دینا ہوگا۔
انفرادیت سے عاری نظام
تعلیم کا مقصد افراد کو بامقصد زندگی کے لیے تیار کرنا اوران کے مطلوبہ
اہداف تک رسائی کے لیے بااختیار بنانا ہے۔ ہر بچہ بڑا ہو کر ایک راکٹ
سائنٹسٹ بننا نہیں چاہتا، ہو سکتا ہے کہ وہ بڑا ہوکرایک شاعر، گلوکار،
کھلاڑی یا ایک مقرر( عوامی اسپیکر )بننا پسند کرے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی سب
سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم تمام طلبہ کو ایک جیسے مضامین پڑھاتے ہیں اور ان
کی انفرادیت کو خاطر میں لائے بغیر ایک ہی طریقہ تعلیم سے سبھی کوگزارتے
ہیں ۔یہ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ چند سال بعد پڑھائے گئے مضامین میں سے
بیشتر مضامین طلبہ کے لیے اہم ثابت ہوتے ہیں نہ ہی سود مند۔ بے شک اس بات
سے کسی کوانکار نہیں ہے کہ ہر مضمون کی بنیادی معلومات طلبہ کو فراہم کرنی
چاہیے ۔اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ طلبہ کے تعلیمی زندگی کے دس(10)قیمتی
سالوں تک انھیں ایسے مضامین پڑھائے جائیں جو مستقبل میں ان کے کسی کام نہ
آئیں۔طلبہ مستقبل میں کسی ایک مضمون ،ایک پیشہ یا فیلڈ کو اختیار کریں گے
تو پھر کیوں ان پر مختلف مضامین کو ایک طویل مدت تک مسلط کیاجاتا ہے۔اس
فرسودہ اور روایتی نصاب کو بڑی حد تک بدل نے کی ضرورت ہے۔
موثر و تخلیقی اکتساب
ہمیں اکتساب کو تاثیر و تخلیق کا ایک حسین مرقع بنا نے کے لیے نصاب تعلیم
پربھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔نصاب میں ضروری مضامین اور اس کی مقدار کی
شمولیت کے معیار کو تبدیل کرنا ہوگا۔بے شک صدیوں سے ریاضی اور سائنسی علوم
پر دسترس رکھنے کا ہمیں شرف حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں
کو صرف ریاضی اور سائنس تک ہی محدود کردیں۔ہمیں دیگر سماجی اور ادبی علوم
کو یکساں اہمیت دینا چاہیے۔ریاضی اور سائنس کے باقاعدہ مضامین کے ساتھ
تخلیقی مضامین کی شمولیت کے لیے نصاب کی تبدیل ایک نیک فال ثابت ہوگی۔ان
خطوط پر نصاب کی تدوین سے طلبہ میں اپنے تعلیمی دور کے ابتدائی ایام سے ہی
اہم،بڑے اور گنجلک رجحانات و تصورات کو سمجھنے کی لیاقت پیدا ہوجائے گی۔ یہ
قدم طلبہ میں پائیداردلچسپ ،بامعنیٰ اکتساب اور حقیقی ترقی کی سلامتی کا
ضامن ہوگا۔
طریقہ ہائے تدریس
تعلیمی اصلاحات کے لیے صرف نصاب کی تبدیلی ہی کافی نہیں ہے ۔اس کے لیے
اساتذہ اور تدریسی طریقوں میں بہت زیادہ تبدیلیوں کو جگہ دینے کی ضرورت
ہے۔ہمارے تدریسی طریقے فرسودہ اور پرانے ہوچکے ہیں۔ہم آج بھی بلیک بورڈ اور
چاک کو ہی تعلیم کے واحد طریقے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اگرچیکہ طریقہ
تعلیم میں ای لرننگ لہر سے کسی قدر تبدیلی ضروری آئی ہے لیکن اس کا تناسب
بہت کم ہے۔ نہ صرف ہمارا طریقہ ہائے تدریس از کاررفتہ ہوچکے ہیں بلکہ ہمارے
اساتذہ بھی قنوطیت کا شکار ہیں۔ اسکولوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اساتذہ
کو درس و تدریس کے نئے طریقوں سے آراستہ کریں۔انھیں سرگرم ای ٹیچنگ ولرننگ
سے لیس کرنے کے اقدامات کریں۔ای لرننگ بلاشبہ ایک تخلیقی اکتسابی عمل ہے
لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسے ایک قابل استاد انجام دے ۔ اساتذہ کو درس
وتدریس کے جدید اور موثر طریقوں سے لیس کرتے ہوئے ہم حیرت انگریز نتائج
حاصل کرسکتے ہیں۔اسکولوں کو جدید آلات (Gadgets)سے آراستہ کردینا ہی کافی
نہیں ہوگا۔اساتذہ کو جدید تعلیمی ٹولز کے موثر استعمال کی تعلیم و تربیت
بھی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ تالی بجانے کے لیے ہمیشہ دو ہاتھ
درکار ہوتے ہیں۔
افادی تعلیم(Functional Literacy)اور دنیا کے تقاضوں(Market Knowledge)کا
صفرعلم
ہمارے کسی بھی بورڈ کے تقریباً دودہائیوں پر مبنی نصاب کا جائزہ لیں تو ہم
آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ ہمارے نصاب میں نہیں کے برابر تبدیلیا ں
واقع ہوئی ہیں۔ہمارا تعلیمی نظام دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق ، فعال
وافادی تعلیم فراہم کرنے سے عاری ہے۔اس کی آسان وضاحت یہ ہے کہ’’ ہم کسی
خاص علمی اصطلاح سے توواقف ہیں لیکن اسے عملی طور پر کیسے انجام دیاجائے اس
سے ہم بالکل کورے ہیں۔مختصراً عملی تدریس سے ہم اب بھی کوسوں دور ہیں۔
درجات کے مطابق تدریجاًنصاب کے اضافے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنے
تعلیمی نظام سے فعال افادی تعلیم کو بالکل نکال پھینکا ہے۔ اس کے علاوہ
ہمارے تعلیمی نصاب کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ مارکیٹ کیسے کام کرتی
ہے اور معیشت کس طرح سے چلتی ہے یا چلائی جاتی ہے۔فعال افادی تعلیم اور
مارکیٹ کے تقاضوں کے بارے میں ہمارے نصاب میں معلومات صفر ہو گی۔طلبہ کو کم
از کم ثانوی سطح سے مارکیٹ کی بنیادی تعلیم فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ دنیا
کے مالیاتی کام کاج کو بہتر طریقے سے سیکھنے اور سمجھنے کے لائق بن سکیں۔
کرنے کے کام
تعلیم سب کے لیے ضروری ہے لیکن اس سے بھی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی
نصاب میں افراد کی مجموعی ترقی کو لازماً جگہ دی جائے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ
ہم ایک ایسا تعلیم نظام کو وضع کریں جہاں گریڈنگ سسٹم کی شکل میں، محنت کی
نمائش پر بچوں کو مجبور نہ کیا جائے۔بچوں میں تجسس کو مہمیز کریں،ان سے
سوالات پوچھیں،انھیں سوالات کرنے دیں اور انھیں ان کی دلچسپی اور پسند کے
مطابق مضامین لینے کی آزادی دیں جن میں وہ اپنا کیرئیر اور مستقبل بنا نا
چاہتے ہیں۔درس و تدریس اور اکتسابی عمل(سیکھنے کے عمل میں)میں ٹیکنالوجی
اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔لیکن یادرہے یہ کسی صورت استاد کا نعم البدل نہیں
ہوسکتی۔آڈیو ویژول ایڈز،ا سمارٹ بورڈز، آن لائن مواد اورانٹرنیٹ مربوط کلاس
رومس نے درس و تدریس اور اکتساب کے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ طلبہ کے پاس
پہلے سے زیادہ اب انٹر ایکٹوطریقوں سے سیکھنے کے ذرائع موجود ہیں ۔ اب
تصورات کو سمجھنا اور ذہن میں محفوظ رکھنا آسان ہے۔اب وقت آچکا ہے کہ حکومت
درس و تدریس اور اکتساب کے جدید طریقوں کواپنانے میں ا پنا سرمایہ مشغول
کریں۔ شعبہ تعلیم،درس وتدریس و اکتساب جیسے اہم موضوعات پر ریسرچ
کروائے۔بنیادی سطح پر موثر و افادی تعلیم کو نافذ کرنے کے لیے حکومت اساتذہ
اور والدین کے مشوروں ا ور اشتراک سے کام انجام دے۔
|