ہمارے ایک استاد

ہمارے ایک استاد تھے جن کے بارے میں خیال تھا کہ بہت بڑے مفکر ٹائپ شخصیت ہیں. اور تحریر کے بھی ماہر ہیں اور مطالعہ بھی وسیع ہے.

ہم نے بھی بغرض استفادہ ان سے دوستی بنائی. پھر سوچا کہ ان سے تحریری گُر سیکھے جائیں. کالم نما ایک تحریر لکھ کر ان کے حوالہ کیا. عرض کیا: اس میں ایڈیٹنگ کیجئے. جہاں جہاں اصلاح کی ضرورت ہو کر لیجیے اور ہمیں بتائیں کہ لکھتے ہوئے کن چیزوں سے پرہیز کرنا ہے اور کن چیزوں کو اپنانا ہے.

استاد محترم ہماری تحریر اپنی کتاب میں دابے چل دیے. ہفتہ بھر انتظار کے بعد بھی ایک صفحہ واپس نہ آیا تو ایک دو دفعہ یاد دلایا، چونکہ اس زمانے میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کا خمار چڑھا ہوا تھا تو استاد محترم سے مطالبہ کیا کہ اگر اس صفحے کو دیکھا ہے تو واپس کیا جائے. انہوں نے فرمایا ہاں دیکھا ہے. پھر وہ صحفہ نکال کر واپس دیا. استاد محترم نے چھ لائنوں تک پڑھا تھا اور ان چھ لائینوں میں دو جگہ قلم بھی چلایا تھا.

اتنا کہ کہا کہ آپ کا مطالعہ اچھا ہے.

ہمیں اچھی طرح اندازہ ہوا کہ استاد محترم ہمیں سکھانے کے موڈ میں نہیں.اس کے بعد دوبارہ تحریر سیکھنے کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا.

میرا ایک اور استاد تھا جو مزاجا بہت سخت. عام طور پر طلبہ کی ان سے نہیں بنتی. طلبہ دور رہتے.
میں سیکھنے کے معاملے میں ڈیٹھ ہوں. بہت مشکل سے ان سے دوستی بنائی پھر ان سے باقاعدہ سیکھنے لگا. ان کی نرم گرم باتیں خوشی خوشی سہہ جاتا. ان سے عربی و اردو تحریر میں بہت اصلاح لیا. میں نے ایسا استاد کبھی نہیں دیکھا، وہ کھلاتے بھی تھے، سکھاتے بھی تھے اور کھری کھری سناتے بھی تھے. یہ سارے کام بہت شوق اور اہتمام سے کرتے تھے. سکھانے کے اصول بھی بہت سخت تھے. کچھ شرائط طے کررکھی تھی ان کی خلاف ورزی نہیں کرنی تھی،خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اگلے دن سے سیکھنے سکھانے کا تعلق ہی ختم تھا.گھر پر کھانے کے لیے بلاتے اور وہی پر دو چار سنا دیتے. میرے بہت سارے اساتذہ ہیں.بہت اچھا تعلق ہے تمام اساتذہ سے. اب کسی کی ناراضگی کا خوف نہیں ہوتا مگر حضرت والا کی ناراضگی کا خوف اب بھی دامن گیر رہتا ہے. وہ مجھے اپنے بچوں جیسا سمجھتے ہیں.

جب میرا پہلا کالم چٹان اخبار میں چھپا تو اس دن سے اس نے میرا نام ہی چٹان رکھا تھا، اور اب تک چٹان صاحب ہی کہتے ہیں. ایک دفعہ کہا " چٹان، اگر تو کراچی والا ہوتا تو اتنی محنت اور ذوق سے بہت جلدی سیکھتا مگر تو چٹان کی طرح سخت ہے."

ایک موقع پر عجیب بات کہی. " جب کل تمہارے کالم اور کتابیں چھپ جائیں گی تو بہت سارے کہیں گے، یہ ہمارا شاگرد ہے مگر تمہیں معلوم ہے انہوں نے آپ کا کتنا ٹائم دیا ہے اور کتنا سیکھایا ہے". پھر ایک مدت بعد ایسا ہی ہوا.

ایک صاحب کو تو ویسے ہی میرے استاد ہونے کا دعویٰ تھا مگر انہیں باقاعدہ بتانا پڑا کہ آپ سے پڑھنے اور کچھ سیکھنے کا موقع نہیں ملا ہے تب ان کا استاد بننے کا شوق ختم ہوا.

اللہ میرے تمام اساتذہ کو سلامت رکھے.

احباب کیا کہتے ہیں؟
 
Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 384710 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More