اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم کافی چھوٹے، گرے ہوئے اور
گھٹیا قسم کے لوگ ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری کارکردگی کو صرف یہی
اوصاف گرہن لگا رہے ہیں یا اِن کے علاوہ بھی ہم بہت سی خوبیوں کا شاہکار
ہیں۔
اس ملک کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا رونا کب تک رویا جائے اور کس کس بات
پر رویا جائے۔ ہم سب اس کی بربادی میں برابر کے شریک ہیں۔ نیچے سے لے کر
اوپر تک، ہر طبقہ ہائے فکر نے پاکستان کی ترقی اور تعمیر کو لے کر غیر
سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ارباب اختیار اور اقتدار پر براجمان رہنے والی
سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کا ملکی تباہی پر دستِ شفقت کچھ زیادہ ہی
رہا۔
سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی خامیوں اور برائیوں کو تسلیم
کریں۔ ہم سچ کا سامنا کریں۔ ہمارے اندر اتنی ہمت ہو کہ ہم کسی غلط کام پر
ماتحت ہو کر بھی اپنے باس کو انکار کرسکیں۔ ایک چھوٹی سی مثال دینے کی
جسارت کر رہا ہوں۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت میں سابق وزیراعظم عمران خان کو
روحانیت سے شغف تھا یا اُنہیں تصوف سے لگاؤ تھا یا اُن کی زوجہ اور سابقہ
خاتون اول بشریٰ بی بی مذہبی سوچ کی حامل خاتون تھیں۔ کیا خاتون اول یا خود
وزیراعظم کی خواہش پر ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ کسی
میں ہمت ہو سکتی ہے کوئی وزیراعظم صاحب سے کہے کہ جنہوں نے روحانیت یا تصوف
کی منازل طے کرنی ہیں وہ یونیورسٹی کے بغیر بھی اُس معراج پر پہنچ سکتے
ہیں۔ ہاں ہمیں اگر ضرورت ہے تو ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ایکسپرٹس بنانے
والے اداروں کی ضرورت ہے۔ ہمارے اداروں، محکموں اور افسروں میں اس سچ اور
ہمت کی کمی ہے۔ ہم حق اور سچ بات کہنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اپنے افسران بالا کو
ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ یقینا ہمارا”نہیں“ارباب اختیار اور اقتدار والوں
کو ناراض کر دے گا۔
جووزیر، وزیراعلیٰ، گورنر، وزیراعظم یا صدر اپنے کسی بھی ماتحت کے انکار کو
برداشت نہیں کر سکتا، وہ یقینا بڑے عہدے اور منصب پر بیٹھا ہوا چھوٹا انسان
ہے اور وہ آفیسرز جو بڑے عہدوں پر بیٹھی شخصیات کو درست راستہ دکھانے کی
بجائے اُن کے ناجائز اور غیر قانونی احکامات اور خواہشات پر عمل کرتے ہیں،
وہ بھی کمزور، بزدل، خوف زدہ اور خود اعتمادی سے محروم آفیسرز ہیں۔
فن لینڈ کی خاتون وزیراعظم سانا مارین کو اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ناشتے
کے اخراجات کی مد میں ماہانہ تین سو یورو سرکاری خزانے سے ادا کیے جانے پر
فن لینڈ کے میڈیا میں طوفان برپا ہو گیا تھا۔ جس پر پولیس اور متعلقہ
اداروں نے فوراً تحقیقات کا آغاز کیا اور خود فن لینڈ کی وزیراعظم نے بھی
کہا کہ جب تک اس بات کا پتہ نہیں چل جاتا کہ مجھے ناشتے کیلئے سرکاری خزانے
سے پیسے لینے کی مراعات حاصل ہیں یا نہیں میں سرکاری سبسڈی کے پیسوں سے
ناشتہ نہیں کروں گی۔
یہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں کچھ کرنا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے کچھ
نہیں کرنا۔ ہم اپنا یا سابقہ حکومتوں کے کئے ہوئے کام بھی ختم کرنے پر تُلے
ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی جب آئی تو اورنج ٹرین کا کام اور اُسے چلنے سے روکے
رکھا۔ پی ٹی آئی حکومت گئی تو موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کے کاموں میں
سقم اور خم تلاش کرنا شروع کردئیے ہیں۔ جیسا کہ موجودہ حکومت کے عہدیداروں
کی جانب سے کہنے اور سننے میں آرہا ہے کہ پی ٹی آئی کی یک نصاب تعلیمی
پالیسی کو ختم کر دیاجائے گا۔ اب اس میں نقصان کس کا ہے؟ یک نصاب تعلیمی
پالیسی بھی غالباً عمران خان کی خواہش تھی، جس خواہش کی تکمیل میں تعلیمی
ماہرین سے بھی یقینا مشاورت نہیں کی گئی ہو گی۔ وزرات تعلیم نے دوسری تیسری
جماعت کے طلبہ کو Gravityکی بجائے کشش ثقل پڑھانے کی ضد کیے رکھی۔ جس کیلئے
وزرات تعلیم نے بلاشبہ کروڑوں خرچ کیے ہونگے۔ سابقہ حکومت کا یہ کارنامہ
غلط تھا یا درست۔ اس بات کا غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ ایسے
پروفیسر، اساتذہ اور تعلیمی ماہرین کی خدمات لے کر اُن سے رائے لی جائے کہ
ایک قومی نصاب جو تعلیمی اداروں میں اب پڑھایا جا رہا ہے۔ اس کے فوائد
زیادہ ہیں یا نقصان۔
ہمارا اس ملک و قوم کیلئے مخلص ہونا ضروری ہے۔ دیانت داری، حق گوئی، ذاتی
پسند نا پسند سے ماورا ہو کر سیاسی اور غیر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر
ہم جو بات کہیں گے جو رائے اور مشورہ دیں گے، اُس سے کہیں نہ کہیں، کبھی نہ
کبھی پاکستان کو فائدہ ہوگا۔
ایک صوبائی یا وفاقی وزیر، وزیراعلیٰ یا گورنر، وزیراعظم یا صدر اپنی
سرکاری رہائش گاہوں یا سرکاری دفاتر کی تازئین و آرائش میں کروڑوں روپیہ
خرچ کرتے ہیں۔ پانچ سال مکمل ہونے پر اگلی حکومت کے ارباب اختیار دوبارہ
کروڑوں روپے لگا کر دوبارہ تازئین و آرائش کرتے ہیں۔ خدارا! ہوش کے ناخن
لیں۔ ہم تیل نہیں بیچتے، سونے اور ہیروں کی کانیں نہیں ہیں ہمارے پاس۔ہم
ایک غریب ملک ہیں۔ جس کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین مریض لیٹے
ہیں۔ جس کا تعلیمی بجٹ کم ہے۔ جس کا صحت کا بجٹ مختصر سا ہے۔ ہمارے قومی
اخراجات ہماری قومی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے قرضوں پر
چل رہے ہیں۔ ہمیں سالانہ اربوں روپے قرضے کی اقساط کی صورت میں ادا کرنے پڑ
رہے ہیں۔ ہمارے صوبے بلوچستان اور سندھ پسماندہ ترین علاقوں پر مشتمل ہیں،
جہاں اسلام آباد، کراچی اور لاہور جیسی سہولیات ناپید ہیں، مگر یہاں کے
سیاستدان ارب پتی ہیں۔ اُنہیں معلوم ہے کہ اُن کے حلقے کے لوگ غربت میں
زندگی گزار رہے ہیں۔ اُنہیں خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ اُنہیں پینے کے صاف
پانی کی سہولت میسر نہیں۔ وہاں اچھے سکول نہیں۔ وہاں لائبریریاں موجو
دنہیں۔ وہاں ہسپتال نہیں، مگر یہ سیاستدان جب سے پاکستان بنا ہے حکومتوں کا
حصہ چلے آرہے ہیں۔ کبھی بھائی کبھی بیٹا، اِ ن کی قسمت بدل گئی مگر پاکستان
کی غریب عوام کی قسمت نہ بدلی۔ یہ سیاستدان مالا مال ہو گئے، عوام کنگال ہو
گئے۔
وجہ بہت صاف اور واضح ہے۔ ہم بہت چھوٹے، گر ے ہوئے اور گھٹیا قسم کے لوگ
ہیں۔ ہم میرٹ پر فیصلے کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایک ماتحت اپنے باس کو انکار کرنے
سے ڈرتا ہے۔ کابینہ کا سیکریٹری وزیراعظم کو انکار کرنے سے ڈرتا ہے۔
عدالتیں بھی ڈرتی ہیں ایک فیصلہ ایک سیاسی پارٹی کے حق میں دے دیتی ہیں تو
دوسرا دوسری سیاسی جماعت کے حق میں تاکہ بیلنس برقرار رہے۔ نظریہ ضرورت
شائد کبھی دفن ہی نہیں ہوگا۔
ہمیں اس ملک کو بچانے کیلئے، اس سرزمین کو شاد آباد رکھنے کیلئے، جناح کے
پاکستان کو قائم دائم رکھنے کیلئے نیچے سے لیکر اعلیٰ ترین منصب تک حق،سچ
اور انصاف کی بات کرنا ہوگی۔
اس قوم کو اپنی پسند نا پسند سے ماورا ہو کر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت
ہے۔
|