پاکستان میں عوام کی طرح پریس
بھی پابندیوں کا سامنا کرتا چلا آیا ہے۔قیام پاکستان سے80ءکی دہائی تک
پاکستانی میڈیا میں نظریاتی صحافت کا عنصر غالب رہا لیکن پھر انحطاط پذیری
کے اس ماحول میں کمرشل صحافت نے تیزی سے نظریاتی صحافت کی جگہ لے لی۔اس طرح
پاکستانی پریس پر کاروباری طبقے کی حاکمیت قائم ہو گئی ہے۔حکومت کی یہ کوشش
رہتی ہے کہ ایسے ضابطے بنائے جائیں جن سے چھوٹے،نظریاتی اخبارات و جرائد کو
خاتمے کی راہ دکھائی جاسکے ،کاروباری افراد /گروپ کاروباری مفادات کی وجہ
سے حکومت کی مخالفت نہیں کرتے اور عوامی و قومی مفادات کو کلی طور پر نظر
انداز کیا جاتا ہے۔گزشتہ دس سال کے دوران الیکٹرانک میڈیا کی بدولت
پاکستانی معاشرتی قدریں بالکل تبدیل ہو گئی ہیں۔فنانس کردہ خبروں،تبصروں
اور مزاکراتی پروگرام کا طریقہ عام ہے۔عوامی،قومی مفادات پر مبنی انداز
اختیار کرنے ،موضوع اپنانے سے گریز کیا جاتا ہے۔مختصر یہ کہ اصولوں اور
اخلاقیات سے محروم ہوتے پاکستانی معاشرے کی برائیوں کی طرح ہمیں اپنا پریس
بھی مختلف ’پاکٹس‘ کی نمائندگی میں محدود نظر آتا ہے۔ حکومت اخبارات کو
قابو میں رکھنے کے لئے اشتہارات کا حربہ استعمال کرتی ہے اور اخبارات و
جرائد کو اشتہارات کی فراہمی نوازنے اور بھیک دینے کے انداز میں ہوتی
ہے۔یوں تمام تر ترقی کے باوجود پاکستان کا پریس ہمیں عوامی اور قومی مفادات
کے تقاضوں سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔عوام کو بے خبر رکھنے،اہم امور میں عوام
کو اندھیرے میں رکھنے کے سرکاری چلن کو ہماے میڈیا نے بھی کلی طور پر
اپنایا ہوا ہے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اپنے اپنے دائرے ہیںجن کے اندر
رہتے ہوئے انہیں تمام تر تیزیاں دکھانے کی اجازت ہے۔ ملک میں صحافت کے نام
پر قائم تنظیمیں اور ادارے صحافت کے بجائے مفاداتی طرز عمل اپنائے ہوئے
ہیں۔ملک میں پریس کی” ترقی“ کے باوجود علاقائی پریس کی حالت خراب سے خراب
تر ہے۔ حکومت کے عمومی روئیے اور تجارتی افراد،گروپوں کی میڈیا پر حکمرانی
کے ماحول میں پاکستان میں آزاد میڈیا کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا بیرونی
سہارے کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔صحافت کے نام پر قائم تنظیموں اور اداروں
کی صحافت پر ہی” مناپلی“ قائم ہے۔ حکومت کے علاوہ صحافتی تنظیمیں اور ادارے
چاہے ملک میں صحافت آزاد ہونے کے دعوے کرتے رہیں لیکن دنیا کی نظر میں
پاکستان کا پریس آزاد نہیں ہے اور اس حقیقت سے انکار خود فریبی کے سوا کچھ
نہ ہو گا۔ دنیا میں اب یہ رجحان سامنے آرہا ہے کہ صرف ایسے ملکوں کو امداد
دی جائے جہاں سیاسی ،شہری اور صحافتی آزادی کی صورتحال بہتری کی طرف مائل
ہو۔ سیاسی ،شہری اور صحافتی آزادی کا احساس نہ رکھنے والے ملکوں کے ساتھ
ترقی یافتہ ملکوں کے امداد اور تعاون کے تعلقات پر بڑے سوالیہ نشان ظاہر ہو
رہے ہیں۔
امریکہ میں قائم ادارہ ” فریڈم آف پریس‘ ‘ نے دنیا بھر میں صحافتی آزادی کے
صورتحال کے بارے میں اپنی نئی رپورٹ 2011ءجاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان
دنیا کے 63ایسے ملکوں میں شامل ہے جہاں کا میڈیا آزاد نہیں ہے جبکہ بھارت
میں صحافت کو جزوی آزاد قراردیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ بیس
سال کے دوران دنیا بھر میں صحافتی آزادی میں کمی واقع ہوئی ہے اور دنیا کے
صرف15فیصد شہری آزاد پریس سے مستفید ہو رہے ہیں۔اس وقت دنیا کے68ملکوں میں
آزاد صحافت قائم ہے جبکہ65ممالک میں صحافت جزوی آزاد ہے ۔رپورٹ میں مزید
کہا گیا ہے کہ آزاد پریس کی آزادانہ مانیٹرنگ کسی بھی ملک کی صحت مندانہ
جمہوریت ،اچھے حکومتی نظم و نسق،معاشی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے
نہایت اہم بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور احتساب کے حوالے سے بھی آزاد صحافت
کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے۔یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں اکثر دوسرے جمہوری
اداروں کے خلاف حملہ آور ہوتی ہیں۔
” فریڈم آف پریس‘ ‘ کی رپورٹ2011ءمیں بتایا گیا ہے کہ ایشیا کے40ممالک میں
سے14ممالک میں صحافت آزاد،13میں جزوی آزاد اور13میں آزاد نہیں ہے۔35افریقی
ممالک میں سے17میںمیڈیا آزاد،14میں جزوی آزاد اور4میں پابند ہے۔ سینٹرل ،ایسٹرن
یورپ کے29ملکوں میں سے8میں آزاد،12میں جزوی آزاد اور 9ممالک میں آزاد نہیں
ہے۔مشرق وسطی ،نارتھ افریقہ کے19ملکوں میں1ملک میں میڈیا آزاد،2میں جزوی
آزادی اور 16میں پابند ہے۔سب سہارا افریقہ کے 48ملکوں میں سے5میں آزاد،
22میں جزوی آزاد اور21ملکوں میں آزاد نہیں ہے۔مغربی یورپ کے23ملکوں میں
میڈیا آزاد،2میں جزوی آزاد ہے۔
عوام اور ملک کودرپیش سنگین صورتحال میں آزاد پریس کی اہمیت میں اور بھی
اضافہ ہو تا ہے۔حکومتی ،سرکاری اور سیاسی بدانتظامی،بدعنوانی،اقرباءپروری
نے عوام کا اعتماد خاتمے کے قریب تر کر دیا ہے۔دہشت گردی اور اس طرح کے
دوسرے مسائل سے متعلق صورتحال سے عوام کو بے خبر رکھنے کا چلن اب بھی جاری
ہے۔اگر پاکستان کو گھمبیر مسائل سے نکالنا ہے اورملک کو درپیش سنگین خطرات
سے نکالنا ہے تو ہمیں پاکستان میں قومی نظریات و مفادات پر مبنی آزاد پریس
کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا اور ہر صاحب اقتدار واختیار کی مدح سرائی کے
انداز صحافت کو ،مسترد کرنا ہوگا۔یہ آزاد صحافت ہی ہے جو شخصیات کے بجائے
اصولوں کی ترویج کر سکتی ہے ۔ |