مہذب برطانوی معاشرے کی شہرت ایک ہی جھٹکے میں زمیں بوس

کسی عمارت کی خوبصورتی اس کی مضبوطی کی ضامن نہیں ہو سکتی، باہر سے بہت خوبصورت لیکن اندر سے ناقص میٹریل کبھی نہ کبھی اس کا پول کھول دیتا ہے اور خصوصاً اس وقت جب زلزلہ آ جائے جیسے 2005ء کے زلزلے نے مارگلہ ٹاور کا پول کھول دیا بظاہر خوبصورت عمارت زلزلے کے جھٹکے برداشت نہ کر سکی اور زمین بوس ہو گئی۔ برطانوی معاشرے کی بھی اس وقت شاید یہی حالت ہے جیسے لندن فسادات کے زلزلے نے معاشرے کے اندر پائی جانے والی کیفیات کو عیاں کر دیا اور برطانوی معاشرہ جو دنیا بھر میں ایک مہذب معاشرے کا نہ صرف علمبردار تھا بلکہ نشان راہ بھی سمجھا جاتا تھا ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو گیا:
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی

ایک صحافی کے مطابق 1995ء کے برکسٹن فسادات کے بعد یہ سب سے بڑے فسادات تھے۔ بعض نے ان فسادات کو 1985ء کے Broadwater farm Riots سے مماثلت دی۔ کچھ نے 1780ء کے Gordon Riots سے اسے تشبیہ دی۔ ڈیلی میل کے مطابق یہ جرائم کے مساوی مواقعوں کی لہر تھی۔ نیویارک کے ایک اخبار ڈیلی نیوز کے ایک کالم نگار نے اسے ”استحقاق کا ادراک“ قرار دیا جس کی برطانوی نوجوانوں میں موجودگی ان فسادات کا سبب بنی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے نتیجے میں برطانوی نوجوان دنیا بھر میں پرتشدد اور ناپسندیدہ ہو گئے۔ کچھ صحافی لندن فسادات اور 2005ء میں فرانس میں ہونے والے فسادات کا موازنہ کر رہے ہیں، دونوں مواقعوں پر ایک نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر فسادات شروع ہوئے۔ فسادات کی وجوہات جاننے کیلئے بہت سے نظریئے کام کر رہے ہیں جن میں (1) مجرمانہ مصالحت پرستی، (2) پولیس کے ساتھ مقامی لوگوں کا تناؤ ، (3) تشدد برائے تفریح، (4) گینگ کلچر، (5) اقتصادی حالات، (6) بیروزگاری اور عوامی سہولتوں میں تخفیف، (7) سماجی عدم مساوات، غربت اور امیر غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج، (8) فسادات کا موجب غصہ نہیں لالچ، (9) سماجی غیر ذمہ داری، (10) کالے گروہوں کا کلچر جو تمام نسل کے نوجوانوں کو متاثر کر رہا ہے، (11) چھوٹا طبقہ، (12) کثیر الثقافتی معاشرہ۔

بعض تجزیات میں تو اس بات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ ٹوٹنہم ایک کثیر الثقافت آبادی کا علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ ایفرو کریبین کی آبادی ہے۔ یہاں کے مکین تقریباً تین سو زبانیں بولتے ہیں اور یہاں 1985ء کے فسادات کے وقت سے پولیس اور عوام کے درمیان تناؤ کی کیفیت ہے۔ لندن میں ٹوٹنہم بیروزگاری کے لحاظ سے پہلے اور برطانیہ میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ جولائی میں بیروزگاری الاؤنس لینے والوں کی تعداد 37,100 سے بڑھ کر 15,60,000 ہو گئی ہے۔ کونسل کے بجٹ میں حالیہ کٹوتیوں کی وجہ سے 13 میں سے 8 یوتھ کلب بند ہو چکے ہیں۔ میرا اور میرے کچھ دوستوں کا ماننا یہ ہے کہ برطانوی معاشرے کو اسکا ”حسن“ لے ڈوبا۔ نوجوانوں کے استحقاق کو اس معاشرے کی خوبصورتی گردانا جاتا تھا لیکن اس استحقاق نے انہیں نہ صرف پرتشدد بلکہ مجرم تک بنا دیا۔ موجودہ حکومت اس بات کو تسلیم تو کرتی ہے کہ پرورش اور تدریس میں عدم توازن بھی ان فسادات کی وجہ ہے لیکن وہ نوجوانوں کے اس استحقاق کی بات نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ پر بھی بھاری ہیں اور یہی نہیں بلکہ پولیس تک انکا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ والدین ڈانٹیں تو پولیس طلب کر لی جاتی ہے اور عدالتیں اور پولیس ان نوجوانوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ ٹیچر کچھ کہیں تو بھی قانون کے مجرم ٹھہرتے ہیں۔ بچے جرم بھی کریں تو قابل دست اندازی پولیس نہیں بلکہ اب تو برطانیہ کے کئی علاقوں میں ایسے بچوں کے گروہ بن چکے ہیں جو باقاعدہ جرائم کرتے ہیں، علاقے کے لوگ انکی کاروائیوں سے تنگ آ چکے ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔ پولیس انہیں پکڑتی ہے اور قانون انکا ساتھ دیتا ہے صرف ”کاشن“ دیکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بچے ایسے زخم بن چکے ہیں جن کو ”مرہم“ سے آگ لگ گئی ہے۔ برطانیہ کا انسانی حقوق کا علمبردار، مساوات پر مبنی کثیر الثقافتی معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ برطانوی معاشرے کے کچھ حصے بیمار ہو چکے ہیں تاہم انکا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے بارے میں جعلی فکرمندی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ان کا اشارہ غالباً فسادیوں کو دی جانیوالی سزاؤں کے بارے میں ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق دوسرے قوانین کا بھی احاطہ کر لیتے جن میں سرفہرست دہشت گردی ایکٹ 2000ء کا سیکشن 44 اور 47 ہے اور جس کے متعلق واچ ڈاگ کا بھی کہنا ہے کہ اس سیکشن کو ختم کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ جب سے یہ قانون لاگو ہوا ہے اس وقت سے اب تک چھ لاکھ افراد کو روک کر سرچ کیا گیا ہے لیکن ان میں سے ایک کو بھی دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ روکے جانیوالے افراد میں11 فیصد ایشیائی اور 16 فیصد سیاہ فام ہیں۔ دہشت گردی کے قانون کے واچ ڈاگ ڈیوڈ انڈرسن کیوسی کا کہنا ہے کہ سیکشن 47 اور شیڈول 7 کے تحت یہ ضروری ہے کہ کسی شخص کو شک کی بنیاد پر روکا جائے اور یہ شک دہشت گردی کی دھمکی کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کی زد میں زیادہ تر ایشیائی آئینگے اور خصوصاً برطانوی مسلمانوں کو اس سے زیادہ تشویش ہے، اس قانون کے تحت برہنہ تلاشی، ڈی این اے سمپل لینا، 9 گھنٹے تک بیرونی قانونی مدد سے دور رکھنا اور سوالات کا جواب نہ دینا جرم قرار دیا جاتا ہے ایسے قوانین بھی اکثر معاشرے کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیتے ہیں۔ ان فسادات کے دوران برطانوی مسلمانوں کے لازوال کردار کا ذکر برطانوی میڈیا کے علاوہ دنیا بھر کے میڈیا میں سرفہرست رہا۔ برمنگھم کے تین مسلمان سپوت اپنی جان کی بازی تو ہار گئے لیکن برطانیہ میں بسنے والے مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر گئے اور پھر ان میں سے ایک کے والد طارق جہان کا کردار یہ ثابت کر گیا کہ اسلام اصل میں دہشت گردی کا نہیں بلکہ امن و بھائی چارے کا دین ہے اور ایک سچا مسلمان اپنے دین کی حمیت کو ثابت کرتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا غم اولاد کے جنازے کو کندھا دینا ہوتا ہے اور اس موقع پر بھی اپنا غم بھول کر قوم اور معاشرے کو اولیت دینا، بھائی چارے کا درس دینا میرے مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کا نام ہے۔ مزید اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ :
تحریر میں کہاں سمٹتے ہیں دلوں کے درد
بہلا رہے ہیں خود کو ذرا کاغذ کے ساتھ
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 30139 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More