’’اقراء ‘‘یعنی تعلیم و تربیت سے شریعت محمدی ﷺکا آ غا ز
ہونا اس بات کی علامت ہے کہ تعلیم و تربیت ہر انسان کی اولین ضرورت ہے۔گویا
تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔تعلیم ہی کی بدولت حیوان اور انسان میں فرق
ہے۔تعلیم ہی کی بناء پر انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے۔بلاشبہ
تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے۔یقینا اس سے انکار نہیں
کیا جا سکتا کہ تعلیم ہی قوموں کے عروج و زوال کی بنیاد بھی ہے۔تعلیم کا
مقصد یہ ہے کہ انسان کو انسانیت کا سبق ملے۔آدمیت کی پہچان ہو۔بلند اخلاق ،تہذیب
و شرافت پروان چڑھے۔حق وباطل میں تمیز پیدا ہو ،سچ ،جھوٹ میں
امتیازہو۔برائی و بھلائی میں فرق ہو،صراط مستقیم اور رضا ئے الٰہی و قرب
خداوندی کی دولت سے مالامال ہو۔ اگر تعلیمی ادارے ان اعلیٰ مقاصد پروان
چڑھانے کے برعکس طالب علموں میں بے حیائی ،فحاشی سمیت دیگر خرافات فروغ دے
اور طلباء میں مذہب سے بیزاری پیدا ہو پھر توبہ و استغفار ہی کرنا
چاہیے۔کیونکہ یہ نجی درسگاہیں تعلیم و تربیت کے مراکز کی بجائے عجائب خانے
، منافع کمانے والی انڈسٹری کا روپ دھار چکی ہیں ہیں۔ یہاں نسل نو میں
اسلام کی روشن تعلیمات،اعلی اقدار ،نظریہء پاکستان کے پاسبانوں و نگہبانوں
کی پیداوار نہیں ہوگی ۔ وہ یہاں سے نکل کرانسانیت و اسلام کی خدمت کا فریضہ
انجام نہیں دیں گے بلکہ خدانخواستہ قوم و ملت کی تباہی و بربادی کا سامان
بنیں گے۔ تعلیم دنیا کا واحد عظیم الشان شعبہ ہے جہاں انسا ن کا کردار
سنوارا اور نکھاراجاتا ہے۔آج کے جدید دور میں عصری تعلیم ،جدید علوم و فنون
حاصل کرنا لازمی تقاضا ہے ۔مگر عصری تعلیم کے ساتھ اخلاقی تعلیم بھی ضروری
ہے۔اسی اخلاقی تعلیم و تربیت کی بدولت ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور
سماج برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔اسلئے تعلیمی اداروں کا مقصد صرف طالب علموں
کے ہاتھوں میں اعلی ڈگریاں تھما نا نہیں بلکہ طلباء کو شعور ،آگاہی،فکر و
نظر کے ساتھ ساتھ تعمیر انسانیت ،صالح معاشرہ کی تشکیل کے بے لوث جذبے سے
آراستہ کرنا ہے۔افسوس! آج لاکھوں روپے فیس لینے والے برانڈڈ تعلیمی ادارے ،
انہیں کاروباری کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ان کے نزدیک تعلیم موجودہ جان
لیوا مہنگائی کے پرآشوب دور میں بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔مغربی الحادی
ایجنڈے پر گامزن’’ میر ا جسم میری مرضی ‘ کے روح رواں نے درس و تدریس کو
زہر آلودہ اور پراگندہ کر دیا ہے کہ
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اور ہمارے والدین بلکہ پورے معاشرے کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ اعلی نمبر ،
مہنگا تعلیمی ادارہ اور بڑی ڈگریاں ہی آخری منزل سمجھی جاتی ہے۔ یہ سچ ہے
کہ تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور
قوم تعلیم یافتہ ہو گی تو وہ سماجی و سیاسی اور اقتصادی طور پر بھی خود کو
دنیا بھر میں منوا سکے گی۔ افسوس بحیثیت قوم ہم پاکستانی نہیں بن سکے۔ اور
نہ ہی خالص اور سچا پاکستانی بنانے کی اپنے بچوں کو کوشش کرتے ہیں۔اسلامی
جمہوریہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ گزشتہ 76 برسوں سے تعلیمی نظام کو ہی
تختہ ء مشق بنا دیا گیا ہے ہر حکومت اسے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر
استعماریت کی بھینٹ چڑھاتی ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں میں چھپی کالی بھیڑ وں
نے اپنے استعماری ایجنڈے کی تکمیل ،نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے تعلیم
میں بے حیائی کو فروغ دیا ۔رفتہ رفتہ انبیاء کرام ؑ کا مقدس پیشہ لہو لعب ،موج
و مستی کاذریعہ بن گیا ۔ ہم سوائے کف افسوس ملنے کے کیا کر سکتے ہیں کہ نسل
نوجس کوصلاح الدین ایوبی ،محمد بن قاسم کے جانشین بننا ہے باقاعدہ منظم
منصوبہ بندی کے تحت ان کے اندر سے جذبہ ایمانی ،غیرت ایمانی کھرچ کر فحاشی
،عریانیت کا زہر سرائیت کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ نجی یونیورسٹی ’کامسیٹس‘ کے
شعبہ الیکٹرک انجینئرنگ کے طلبہ کو انگریزی کمپوزیشن میں مضمون لکھنے کے
لیے 2 بہن بھائیوں کو غیر فطری تعلق قائم کرنے جیسے اخلاقیات سے گرے اور
تعلیمات اسلامی کے منافی سوال نے ششدر کر دیا ہے اور اسلامی طبقہ ء زندگی
کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں۔جبکہ غیر
اخلاقی سوال بنانے پر لیکچرا رکو یونیورسٹی سے فارغ کردیا گیا۔لیکن سوال یہ
ہے کہ کیا فارغ کرنا ہی حل تھا؟۔اس سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے
انگریزی پرچے میں کچھ اسی قسم کا سوال تھا، کنیرڈ کالج میں پچھلے سال ایک
ایسے ہی موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کالج کی لڑکیوں نے بڑھ
چڑھ کر حصہ لیا۔ جب کسی نے اعتراض اٹھایا تو کہا گیا کہ ہم تو معاشرے میں
برائی کی نشاندہی کررہے ہیں۔ یہ معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ہے یا کسی
بھی واقعے یا تعلق کو نارملائز کرنے کی ایک سازش؟۔ لاہور میں ایک نجی
یونیورسٹی میں بالی وڈ ڈے بھی بہت جوش وخروش سے منانے کی خبریں منظر عام پر
آچکی ہیں ۔ ایسا ہی ایک سوال علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پرچے میں بھی
پوچھا گیا تھا کہ ’اپنی بہن کے فگر پر نوٹ لکھیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ محرم
رشتوں کو جنسی آلودگی کا نشانہ بنایا جانا کس کی حکمت عملی ہے؟ اگر پرچوں
میں یہ حالت ہے تو کلاس روم کا ماحول کیسا ہوتا ہو گا؟حکومت پاکستان کہاں
ہے اور کیا اسے یاد رہے آئین کا آرٹیکل 31 اس ضمن میں کیا رہنمائی فرماتا
ہے؟۔بڑے اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں میں نصاب بھی اپنا ہی پڑھایا جاتا ہے جو
حکومت سے منظور شدہ نہیں ہوتا۔ ایک سروے کے مطابق ان اعلیٰ تعلیمی اداروں
میں ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس سے نئی نسل میں نظریہ پاکستان سے روشناس
کروانے کے بجائے قیام پاکستان کے مقاصد سے ہی ہٹایا جا رہا ہے۔ اسلام اور
مشرقی اقدار و روایات کے خلاف ان کی ذہنی آبیاری کی جا رہی ہے۔ جس کی واضح
مثال مخلوط تعلیمی ادارے ہیں۔ لڑکا‘ لڑکی کا کھلم کھلا اختلاط کو اسلام میں
ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ایسے اعلیٰ انگلش میڈیم سکولوں
کا خاصہ ہی یہی ہے کہ یہاں پر فیس کی تمیز کئے بغیر ہر قسم کی تعلیم دی جا
رہی ہے۔ یہاں آزادی مادر پدر کے نام پر مشرقی تہذیب‘ ہماری اقدار کی سرعام
دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ جیساکہ یہاں کی زیر تعلیم طالبات نے اپنے خون
آلودہ سینٹری پیڈز اور زیر جاموں کو تعلیمی ادارے کی دیواروں پر چسپاں کرکے
اپنی آزادی کا اظہار کیا اور نعرہ لگایا کہ ’’مرد کنڈوم کھلم کھلا خرید
سکتے ہیں تو ہم پیڈز کیوں نہیں‘‘۔کونسے ایسے باعزت پاکستانی والدین ہوں گے
جو ایسے مغربی زدہ تعلیمی مخلوط اداروں میں اپنے لڑکیوں حتیٰ کہ لڑکوں کو
بھی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجیں گے۔ صرف یہی یہ نہیں سیکس کی تعلیم دیکر
اسلامی تعلیمات کا بھی تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سکول
انتظامیہ و مالکان کو اسلامی تعلیمات‘ ہماری مشرقی روایات و اقدار کا مذاق
اڑانے کی کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔
ایسے تمام تعلیمی اداروں کے مالکان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو فحاشی و
عریانی پھیلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔یعنی کھلے عام ضابطہ اخلاق‘ اسلامی
قوانین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی آئین کے احکامات کو نظرانداز
کیا جاتا ہے اور ان سے بازپرس کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔ کوئی تو ہو جس
میں جذبہ ایمانی زندہ ہو اور وہ ان اسلام و ملک دشمنوں کو اپنے بیرونی
آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مکروہ عزائم کا سدباب کر سکے۔بدقسمتی
سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں مشرقی روایات کو معیوب
سمجھا جانے لگا ہے اور روشن خیالی کے نام پر نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف
دھکیلا جا رہا ہے۔ ہم اپنی اقدار کو بھول کر فحاشی کے راستے پر چل نکلے ہیں۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں ہماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں ۔
مغربی تہذیب کے دلدادہ ان اساتذہ نے تو ایک استاد کی عزت رتبہ بھی خاک میں
ملا دیا ، اور ان یووسٹیوں اور کالجز میں لڑکیون اور لڑکوں کا کھلم کھلا
میل جول بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔ مغرب کی غلاظت زدہ تہذیب کے بارے میں
بقول علامہ اقبال
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
|