گزشتہ کل جامعۃ الرشید کراچی کی بے اعتنائی پر کچھ کلمات
لکھے تو بہت سے سنجیدہ اہل علم اور متفکر دوستوں نے سراہا، درد دل کو
سمجھنے کی کوشش کی.اور ہمارے پیغام کو بڑوں تک پہنچایا. اللہ انہیں جزائے
خیر دے. اور بہت سارے جہان دیدہ احباب نے خوب پھبتیاں بھی کَسی اور گلگت
بلتستان کو بانجھ قرار دینے کی سعی بھی کی.اور کچھ دوستوں نے ان کی توثیق
بھی کی.
میرا مدعا قطعاً یہ نہیں ہے کہ کسی پروگرام، سیمینار یا گیدرنگ میں گلگت
بلتستان سے کسی بڑے عالم، اسکالر، مصنف یا ادیب کو لاہور، کراچی اور اسلام
آباد بلایا جائے اور انہیں پروٹوکول دیا جائے. اور بس
گلگت بلتستان بالعموم اور اہل سنت بالخصوص بہت سارے حوالوں سے پسماندہ ہیں.
مسائل و مشکلات کا شکار ہیں. گلگت بلتستان کی تعلیمی ترقی میں آغا خان
فاونڈیشن کا بڑا کردار ہے. ان کے انتہائی منظم تعلیمی، رفاہی اور طبی ادارے
ہیں. دیگر بہت سارے ادارے کام کرتے ہیں. شیخ محسن نجفی کی نگرانی میں اسوہ
اسکول سسٹم بھی انتہائی فعال ہے.
یہ میرا مشن ہے کہ اپنے اکابر اور متعلقہ اداروں اور شخصیات سے گلگت
بلتستان کی پسماندگی بیان کروں، یہاں کے عوام کی تعلیمی و رفاہی ضروریات کو
ان کے سامنے رکھوں.
جامعہ بیت السلام کے نگران استاد محترم مولانا عبدالستار صاحب سے تفصیلات
شئیر کی تو انہوں نے بیت السلام ویلفیئر ٹرسٹ، جامعہ بیت السلام اور انٹلکٹ
کیڈٹ کالج کے دائرہ کار کو جی بی تک وسیع کرنے کا عزم کیا اور آج الحمدللہ،
انہوں نے انٹلکٹ کیڈٹ کالج کا اسکالرشپ دینا شروع کیا. اپنے پیرو مرشد شیخ
مختارالدین شاہ صاحب کے احباب کے سامنے بھی صورت حال بلاکم و کاست عرض کیا
تھا تو انہوں نے بھی گلگت بلتستان میں تحریک ایمان و تقوی کا کام شروع کیا.
بہت سارے اداروں اور شخصیات سے مفصّل گفتگو کیا ہے. انہوں نے سنجیدگی
کیساتھ سنا ہے، جلد یا بدیر وہ بھی آئیں گے. میڈیا کی بے رخی پر بھی لکھا،
سلیم صافی صاحب نے تو "میڈیا اور محروم پاکستان" کے عنوان سے پورا کالم بھی
لکھا جس میں میرا مفصل خط شایع کیا.
برادرم مولانا عدنان کاکاخیل صاحب سے بھی تفصیلات شیئر کی تو انہوں نے بھی
البرہان کا سلسلہ گلگت بلتستان میں شروع کرنے کا عزم کیا ہے. ہمارا پیغام
اپنی کور کمیٹی کے سامنے رکھا ہے. آج نہیں تو کل وہ بھی آئیں گے.
بہر حال مجھے سرکاری سطح پر، نجی طور پر، تعلیمی اور رفاہی اداروں کے
سامنے، جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے، ان کے سامنے گلگت بلتستان کے متعلق
گزارشات پیش کرتا ہوں. یہ کوئی نئی بات بھی نہیں. سالوں سے میرا یہ طریق
ہے. این ڈی یو کے ورکشاپس کے توسط سے جی ایچ کیو میں سابق آرمی چیف جنرل
باجوہ اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف، پیمرا کے چیئرمین اور اسلامی
نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کے سامنے بھی یہی ملی جلی
باتیں عرض کی تھی. قبلہ ایاز صاحب نے تو بہت سراہا اور جی بی سے ممبرشپ کے
لیے اپنے طور پر کوشش بھی کی تھی.
میری جامعۃ الرشید، الغزالی یونیورسٹی اور دیگر احباب سے بھی گزارش ہے کہ
وہ اپنے تعلیمی اور رفاہی امور کو گلگت بلتستان تک وسعت دیں. اپنے کیمپس
اوپن کریں. یہ اس وقت ہوگا جب یہ حضرات پسماندہ گلگت بلتستان کا درد محسوس
کریں، لوگوں کی مشکلات کو سمجھیں اور ان کے سے میل ملاپ کریں. زمینی حقائق
کا جائزہ لیں، صرف گھومنے پھرنے اور سیر و سیاحت کے لیے گلگت بلتستان نہ
آئیں بلکہ درد دل لے کر آئیں. اس کے لئے کمیونیکیشن گیپ کو ختم کرنا ہوگا.
پاکستان صرف بڑے شہروں کا نام نہیں. اور نہ ہی دینی و رفاہی کام کی ضرورت
بڑے شہروں میں ہوتی ہیں. بلکہ اس کے زیادہ مستحق پسماندہ اور محروم علاقے
ہیں. اس کے لیے ڈاکٹر امجد ثاقب کا ماڈل سمجھنا ہوگا. اس کے طرح اپنوں کا
درد محسوس کرنا ہوگا.
بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو کہنا چاہتا مگر کہنا مشکل ہورہا ہے. درد دل ہے
بیان کیے جارہا ہوں ، شاید کسی کے دل میں اتر جائے.
|