تحریر: رمضان گِل
اسلام کے خلاف سازش اہل یہود کا کوئی انوکھا کام نہی بلکہ انکی قبیح حرکتیں
ہمیشہ سے آ رہی ہیں روز اول سے ہی نت نئے طریقوں سے اسلام کی جڑوں کھوکھلا
کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے آزماتا آ رہا ہے ان یہودیوں کا سب سے بڑا ہتھیار
عریانی اور فحاشی کو فروغ دینا ہے اس کے لئے خاطر خواہ فنڈنگ بھی کر رہے
ہیں چناچہ اسلام آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی میں انگلش کے پرچے میں حیا
باختگی کی انتہا ہو گئی مسلم معاشرے میں بے حیاء کی ترغیب پر مبنی پرچہ
منظر عام پر آ گیا عذاب در غداب میں گری ہوئی قوم اب آ سمان سے پتھر برسانے
پر تلی ہوئی ہے یا بندر اور خنزیر بننے کی خواہشمند ہے
یہ ہے ہمارا تعلیمی معیار یہ ہے ہمارے ٹاپ یونیورسٹیوں کی ذہنیت یہ ہے
ہمارے نام نہاد پروفیسرز کی ذہنیت اور ان کی غلیظ سوچ پاکستان کے ٹاپ کلاس
تعلیمی ادارے یہاں صرف بے حیاء کا درس ہی نہیں دیا جاتا بلکہ بے حیاء کے
سینکڑوں واقعات ملتے ہیں۔اس سے پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے انگریزی
پرچے میں کچھ اسی قسم کا سوال تھا، کنیرڈ کالج میں پچھلے سال ایک ایسے ہی
موضوع پر مباحثے کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں کالج کی لڑکیوں نے بڑھ چڑھ کر
حصہ لیا۔ جب کسی نے اعتراض اٹھایا تو کہا گیا کہ ہم تومعاشرے میں برائی کی
نشاندہی کررہے ہیں۔معاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ہے یا کسی بھی واقعے یا
تعلق کو معاشرہ میں پھیلانے کی ایک سازش!!
مان لیجیے کہ اب یہ موضوعات آپ کی تعلیم گاہوں میں کھلے عام ڈسکس ہوتے ہیں۔
کامسیٹس کا لیکچرر کبھی بھی یہ سوال پرچے میں نہ دیتا اگر اس موضوع پر کلاس
میں بحث نہ ہوئی ہوتی آپ میں سے کسی نے بی ایس انگریزی، ایم اے انگریزی یا
ایم فل کا نصاب پڑھا ہے؟ یہ تو صرف ایک پرچے کا سوال تھا، جو لٹریچر
انگریزی میں پڑھایا جا رہا ہے وہ مغربی سوچ کا عکاس ہے۔ اسی میں ایک ناول
شامل ہے جس میں بیٹا، ماں سے شادی کرنا چاہتا ہے اور پوری کہانی اس کے گرد
گھومتی ہے۔
غیر محرم کے ساتھ بغیر نکاح کے تعلق رکھنا حرام ہے لیکن صاحب یہاں تو محرم
کے ساتھ بے ہودگی کا درس دیا جارہا ہے زیرِ نظر پرچہ اور سوال شاید یورپ
اور اس کے علاوہ ازاد خیال انگلش ملکوں کے تعلیمی اداروں کے پرچوں میں بھی
نہیں دیا جاتا ہوگا جو میرے اسلامی جمہوری پاکستان میں دیے جارہے ہیں. کیا
ذہنیت اور کیسی تربیت ہوگی ایسے اسٹوڈنٹس کی جو ایسے پروفیسر سے پڑھتے ہیں۔
ایسے سوالات کے خوب جوبات دیتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں اس طرح کے سوالات پہلے بھی کافی سکولز اور یونیورسٹیاں
اپنے پرچوں میں دے چکے ہیں. زیرِ بحث پیپر میں گورے کے روپ میں ایک بہن
بھاء کا وہ حال پیش کیا گیا ہے جو یورپ میں دو غیر محرم کا ہوتا ہے
یہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی، کامسیٹس، کا انگریزی کا پرچہ ہیسوال پڑھیے
اور سر پیٹ لیجیے
’’جولی اور مارک بہن بھائی ہیں، وہ کالج سے گرمیوں کی چھٹیوں میں فرانس میں
اکٹھے سفر کر رہے ہیں۔ایک رات وہ ساحل سمندر پر ایک کیبن میں اکٹھے گزارتے
ہیں۔وہ یہ فیصلہ کرتے ہی کہ یہ رات اگر وہ پیار کرنے میں گزار دیں تو یہ
بڑا پر لطف کام ہو سکتا ہے۔کم از کم یہ ان کے لیے ایک نیا تجر بہ تو ہو
گا۔جولی پہلے ہی مانع حمل ادویات استعمال کرتی تھیں اور مارک کنڈوم اپنے
ساتھ رکھتا تھا، تا کہ حفاظتی اقدامات برقرار رہیں۔دونوں نے بہت لطف اٹھایا
اور بہت پیار کیا۔لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ بات کسی اور کو نہیں بتانی
اور ایسا پھر کبھی نہیں کرنا۔یہ رات ان کا خاص سیکرٹ تھا اور اسی وجہ سے ان
میں مزید قربت پیدا کر دی۔ اﷲ پاک ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے
اب جو اقدامات کرنے کے ہیں وہ مقتدر اور بااثر حلقوں کا کا ہے کہ وہ مل
بیٹھیں، کوئی تھنک ٹینک بنائیں، اس کا مستقل حل سوچیں، عدالت جائیں، ذمہ
دار تک پہنچیں، جب اس مسئلے کا کوئی حل نکل آئے تو دکھیاری غم کی ماری عوام
کو نوید جاں گداز سنائیں کہ ہم اہل کرم نے یہ اپنی ذمہ داری اور فرض شناسی
یوں اور یوں نبھائی ہے۔ اب کے بعد کوئی شوقین ہمارے عقیدے، تہذیب، اور
روایات کے ساتھ چھیڑ خانیاں نہیں کرے گا۔ لیکن غم والی بات یہ کہ وہ تو
اپنی اپنی حکومتیں بنانے کے چکر میں ہے۔
میرا ایک ایجوکیشنسٹ اور صحافی ہونے کے ناطے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے ایک
ہی مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجز میں انگریزی ادب کے نصاب پر نظر
ثانی کی جائے اور نصاب نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ کیا آپ اس آواز میں میرا
ساتھ دیں گے؟ تاکہ اپنی نسل کو ان تعلیمی غلاظتوں سے بچا سکیں
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں یہود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
|