سپورٹس ڈائریکٹریٹ، تبدیلی ہیئرڈریسر اور بیگم کے رشتہ دار
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
نگران وزیر اطلاعات خیبر پختونخواہ نے پانچ ہزار ایسے افراد کی بھرتیوں کی نشاندہی کی ہے جو تنخواہیں توسابق دور حکومت میں لیتے رہے اور ان کا بنیادی کام تبدیلی والی سرکار کی "جی حضوری "کرنا تھااور یہ سارے لوگ گھروں میں بیٹھ کر سرکاری خزانے سے ماہانہ تیس سے پچاس اور بعض جگہوں پر لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے رہے اور صرف تبدیلی والی سرکار کی مدح سرائی کرتے رہے.اب انہیں بھرتی کس نے کیا اور انہیں سرکاری خزانے پر بوجھ بنانے والے کون لوگ ہیں اس صوبے کے عوام گدھوں کی طرح آٹے کے پیچھے بھاگتے اور کتوں کی طرح لڑتے رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کو ذرا سی بھی غیرت آئی ہو. ان کی حکومت گئی یہ تو الگ بات ہے مگر مزے کی بات یہی ہے کہ لاہور میں پی ایس ایل کے مقابلوں کو دیکھنے کیلئے لاہوری گھروں کو نکل گئے تھے اور ہمار ے صوبے کے نوجوان گھروں کی چوکیداری کیلئے نکلے ہوئے ہیں اورلاہور میں گذشتہ چار ماہ سے چوکیداریوں میں مصروف ہیں.ماشاء اللہ
نگران وزیر اطلاعات کا انکشاف اوراطلاعات الگ ہیں اس پر حکومت کیا کارروائی کرتی ہیں اور کن کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں لیکن ہم صرف ایک وزارت کی بات کرینگے جس میں ٹھیکیدار کو پورے سال کا کنٹریکٹ ادا کیا گیا اور انہی سوشل میڈیا انفلوانسر کو کثیر رقم سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے ادا کی گئی مزے کی بات یہی رہی کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے نے ٹھیکہ بھی من پسند بندے کو دیا، کام بھی سرکار سے کروایا اور فنڈز بھی انہی لوگوں کو دیا گیا، اب کوئی پوچھے تو شائد سپورٹس ڈائریکٹریٹ والے یہ کہیں کہ "تبدیلی آئی تھی یا پھر خان آیا تھا".
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اگر فنڈز کی ادائیگیاں ہوتی ہیں تو پھر ان سے کام بھی لیا جائے، چلو کام والوں کو فنڈز ملتے ہیں تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی اس سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ایسے لوگوں کو تنخواہوں کی مد میں ادائیگیاں کی جارہی ہیں کہ وہ "صوبے کے بڑے صاحب کے بالوں کی کٹائی"کرتے ہیں یعنی عرف عام میں نائی بھرتی کیا ہے جنہیں آج کل کے دور میں ہیئرڈریسر کہا جاتا ہے ان ہیئرڈریسر کے بھرتی کا معیار کیا ہے بس "صوبے کے بڑے صاحب"کے بالوں کی کٹائی " ہے اور انہیں صاحب نے جاتے جاتے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے جھولی میں ڈال دیا ہے کہ چلوکلاس فور میں بھرتی کروالیں اور ان سے سیکورٹی کا کام لیا جارہا ہے لیکن یہ سیکورٹی بھی ہفتے میں تین دن کرتے ہیں اور تین دن ان کی حاضریاں نہیں ہوتی، البتہ جن تین دنوں میں وہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں ڈیوٹی کیلئے آتے ہیں دوپہر دو بجے سے شام چھ بجے تک کرسی پر بیٹھ کر موبائل فون ہاتھ میں اور کانوں میں ائیرپلگ لگا کر پتہ نہیں کیا دیکھتے یا سنتے ہیں، ہماری تو یہ جرات نہیں، ایک دومرتبہ دور سے دیکھا تو موبائل کے سکرین پر نظریں جمائے بتیسی دکھائی دیتے ہیں.اللہ جانے کیا کیا دیکھتے ہیں، لیکن ڈیوٹی کم از کم نہیں کرتے تنخواہیں انہیں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ادا کررہی ہیں، جنہوں نے یہ کہہ کر کئی سالوں سے کام کرنے والے ڈیلی ویج ملازمین کو نکال دیا تھا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں، البتہ صاحب کے بالوں کی کٹنگ کرنے والے کیلئے تنخواہ ہیں..اب کوئی پوچھے کہ بھائی میرے جب نگران حکومت نے پابندیاں عائد کی ہیں تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے اس نائی کا کیا کام، تو پھر کہیں گے "تبدیلی آئی تھی یا پھر خان آیا تھا".
اس سے زیادہ اور کیا تبدیلی ہوگی کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں بھرتیوں کا معیار رشتہ داری ہے، اگر مال سرکار کو لوٹنے میں سیاستدان ملوث ہیں تو ا س میں بیورو کریٹ کا بھی بڑا ہاتھ ہے، رینکر سے لیکر پی ایم ایس افسران کا، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ جب نگران حکومت نے پابندیاں عائد کی ہیں کہ کسی کو بھرتی نہیں کرنا تو پھر انیس جنوری 2023 کو ایک معذور شخص کوجو صفائی کرنے والے ادارے سے ریٹائرڈ ہو کر آیا ہے اسے کس نے بھرتی کرلیا اور مزے کی بات کہ بھرتی بھی ان کی "لائف گارڈ " کی حیثیت سے کرائی گئی ہیں جنہیں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں واقع عادل خان سوئمنگ پول میں فی الحال تعینات کیا گیا ہے چونکہ آنیوالا سیزن کمائی کا ہے اس لئے ان دنوں کسی کو " اللہ "یاد نہیں آتا، اور ادائیگیاں اور کمائی زیادہ ہوتی ہیں.یعنی اگر سوئمنگ پول پر ایک معذور شخص کو جو ایک ادارے سے ریٹائرڈ ہو کر آیا ہو بھرتی کیا جائے کیونکہ یہ بھی "بڑے صاحب" کے رشتہ دار ہیں اور رشتہ دار بھی، جس پر کسی کی بدمعاشی نہیں چلتی یعنی "بیگم صاحبہ" کے رشتہ دار کے سامنے تو ہماری اپنی نہیں چلتی پھر صاحب لوگوں کی کیسے چلے گی اس لئے بھرتیوں کا عمل "جس کی لاٹھی اور اس کی بھینس والے حساب میں "چل رہی ہیں اور اگرپوچھے تو یہ کہا جائیگا کہ تبدیلی آئی تھی یا پھر خان آیا تھا..
تبدیلی کا شکار سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کا ہاسٹل بھی ہے اتنی تبدیلی آئی ہے کہ ایک صاحب جو آج کل اسی ڈیپارٹمنٹ میں "وڈے افسر"ہیں گذشتہ بارہ سالوں سے سیکشن آفیسر کے دور سے رہائش پذیر ہیں، اور مجال ہے کہ انہوں نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو کرائے کی مد میں ایک روپیہ بھی جمع کیا ہو، لاکھوں روپے تنخواہیں، ٹی اے ڈی اے لینے والے صاحب ہاؤس رینٹ بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے لیتے ہیں بجلی، ائیر کنڈیشنڈ سمیت سرکاری اشیاء کا استعمال جاری و ساری ہے لیکن پلے سے کوئی پیسہ ڈائریکٹریٹ کو نہیں دینا، اور مزے کی بات کہ حال ہی میں چند کلاس فور جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے کو یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ اس ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری جو قبل ازیں پوش علاقے حیات آباد میں واقع سپورٹس کمپلیکس میں رہائش اختیار کرنا چاہتے تھے اب پشاور سپورٹس کمپلیکس میں رہائشی بننا چاہتے ہیں اس لئے کمرے خالی کروائے گئے، یہ صرف وڈے صاحب نہیں بلکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں ایف آئی اے سے لیکر کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی سمیت دیگر محکموں کے افسران کئی سالوں سے ہاسٹل رہائشی کمروں پر قابض ہیں اور صاحب لوگ اس لئے کچھ نہیں کہتے کہ کہیں "کرپشن"پر کوئی فائل نہ کھولے اس لئے عوامی ٹیکسوں سے بنے ہاسٹل میں وی آئی پی کمرے صاحب لوگوں کے قبضے میں ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ "صوبہ دیوالیہ ہو چکا ہے"ایسے میں اگر صوبہ دیوالیہ نہیں ہوگا تو پھر کیسے ہوگا لیکن پھر ہم تو یہی کہیں گے تبدیلی آئی تھی اور خان آیا تھا. #kikxnow #digitalcreator #sports #news #mojo #recruitment #hairdresser #money #funds #hostel
|