کبوتربازی شغل یا کھیل، کبوترباز سجنا


سپورٹس جسے اردو میں کھیل اور پشتو زبان میں لوبی کہتے ہیں کو اگر گوگل پر سرچ کرکے اس کے معانی چیک کئے جائیں تو کسی شخص یا گروپ کی انفرادی سرگرمیاں جو نہ صرف اسے خوشی دے بلکہ اس کے جسمانی ساخت کو بھی بہتر کرے اور اس حوالے سے مقابلے بھی منعقد ہوں، جبکہ اسی لفظ کے اگر ڈکشنری پر معنی چیک کئے جائیں تو ایسی جسمانی سرگرمیاں جو یا تو عام انداز میں ہوں یا پھر اسے آرگنائز کیا جائے اور اس کا بنیادی مقصدجسمانی ساخت سمیت دماغی حالت بھی بہتر ہوں. اب رہی بات کہ سپورٹس ہمارے معاشرے کیلئے کیو ں ضروری ہے وہ اس لئے کہ اس کے ذریعے انسانی جسم صحت مند رہے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں کام آئے. یہ سپورٹس کی بنیادی معنی اور اہمیت ہے.

بلاگ کا آغاز سپورٹس کے لغوی معنی سے اسلئے کیا کہ شائدہمارے کھیلوں سے وابستہ افراد کو پتہ چل سکے کہ کھیل کس کو کہتے ہیں، کم و بیش ایک ہفتہ قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ میں کبوتروں کی ریس منعقد ہوئی.بتایا گیا کہ چھ گھنٹے میں پشاور سے رحیم یار خان تک پہلی پوزیشن پر آنے والے کبوتر کو پہلا انعام دیا گیا، ہم یہ نہیں کہتے کہ پشاور سے رحیم یار خان تک چلنے والے اس کبوتر کی کس نے تصدیق کی کہ وہ رحیم یار پہنچ گیا، یا وہ رحیم یار خان سے کس وقت نکلا تھا اورپشاور پہنچ گیا، نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے یا ٹھیک ہے لیکن ہم گوگل کی ایک وضاحت رکھتے ہیں جس میں سوال یہ کیا گیا کہ کیا کبوتروں کی ریس کو ہم سپورٹس کہہ سکتے ہیں تو گوگل کا جواب ہے کہ نہیں یہ کھیلوں کے زمرے میں نہیں آتا اور تاریخی طور پر یہ کبوتر کو گھر کی پہچان رکھنے کی وجہ سے اسے جاسوسی یا پیغامات کیلئے استعمال کیا جاتا تھا.کبوتر بازی ایک شغل کے طور پر بہت زیادہ مشہور ہے اور یہ شغل شہر اور گاؤں میں یکساں مقبول ہے بچپن میں سنتے آتے تھے کہ کبوتروں کے پر کاٹنا گناہ ہے پتہ نہیں گناہ ہے یا نہیں لیکن بے زبان جانور سے اڑنے کی صلاحیت کچھ ختم کرنا ظلم عظیم ہے

جسمانی بہتری کیلئے کئے جانیوالے کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کھیلوں کی وزارت کی بنیادی ذمہ داری ہے کیونکہ اس ادارے میں بیٹھنے والے افراد خواہ وہ کلاس فور ہی کیوں نہ ہوں وہ کھیلوں کے فروغ کے ذمہ دار ہیں.کیا کبوتروں کی ریس فزیکل صلاحیتوں کی بہتری کی زمرے میں آتی ہیں یا نہیں، یہ وہ بنیادی سوال ہے جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں بیٹھے پی ایم ایس افسران سمیت رینکرزکو سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ کبوترکا شوق رکھنے والے افراد سے صرف کبوتروں کو اڑانے کی آواز یعنی " آں، آں ، آں، آں ، آں " کے سواء اور کوئی جسمانی صلاحیت بہتر نہیں ہوسکتی اور یہ "" آں، آں ، آں، آں ، آں " بھی صرف انسان کے حلق تک ہی محدود ہے اس میں جسمانی بہتری کا کوئی رخ دیکھنے کو نہیں ملتا. ہاں اس کبوتر بازی سے وابستہ افراد کے جیب اس شغل کی وجہ سے بھرے رہتے ہیں کیونکہ کبوتروں کی ریس میں پہلی اور دوسری پوزیشن پر آنیوالے کبوتروں پر نہ صرف شرطیں لگتی ہیں بلکہ اس پر جواء بھی ہوتا ہے اور اگر سرکاری ادارے اس طرح کے پروگرام منعقد کروائے اور ان کی سرپرستی کرائے تو پھر وہ یقینا کھیلوں کے فروغ کے نہیں بلکہ جوے اور اس طرح کی سرگرمیوں کے فروغ کے خواہاں ہیں.کیونکہ یہ تو ایک شغل ہے اور اس میں کسی انفرادی شخص کی جسمانی بہتری نہیں ہوسکتی.

ہمارے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں اتنے " لائق اور بہترین " افسران بیٹھے ہیں کہ انہیں اپنے ادارے کی بنیادی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ عوامی ٹیکسوں کی تنخواہیں کس مد میں لیتے ہیں اور ان کا بنیادی کام کیا ہے، کیا وہ کسی ایسے کھیل کو جس میں جسمانی مشقت بھی ہوں صرف اس لئے جگہ نہیں دیتے کہ یہ اولمپک کیساتھ الحاق نہیں رکھتے یا پھریہ کھیل بین الاقوامی طور پر کھیلے جانیوالے کسی بین الاقوامی مقابلوں میں شامل نہیں حالانکہ وہ کھیل نوجوانوں اور بچوں میں مقبول ہوتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر انہیں مانا نہیں جاتا اسی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ انہیں کھیلوں کیلئے جگہ فراہم نہیں کرتی تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کس طرح کبوتر بازوں کو جگہ اور سپورٹ فراہم کرتی ہیں کیونکہ نہ تو یہ کسی بین الاقوامی مقابلوں میں شامل ہیں اور نہ ہی کھیلوں کی کسی بین الاقوامی فورم نے اس کے مقابلوں کیلئے کوئی معیار رکھا ہے ہاں تاریخ کے جھروکو ں میں اگر دیکھا جائے تو سال 1900 میں پیرس فرانس میں ہونیوالے اولمپک میں کبوتروں کی ریس ہوئی تھی اور یہ اس لئے ہوئی تھی کہ اس وقت صرف سات ایونٹ تھے تاہم کبوتربازی کے اس ایونٹ کو پھر بھی آفیشل طور پر نہیں لیا گیا.

کھیلوں کے مقابلوں کا بنیادی مقصد صبر، برداشت اور دوسروں کی کامیابی پر خوشیاں منانا بھی ہے اور یہ بیشتر کھیلوں میں ہوتا ہے لیکن کیا کبوتربازی سے وابستہ افراد میں صبر اور برداشت ہے یا نہیں، اس کو سمجھنے کیلئے اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذمہ داران صرف ایک سال کے اخبارات کا مطالعہ کرلیں کہ کتنے " کبوترباز وں کے مابین لڑائیاں ہوئیں اور ا س پر کتنی اموات " نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ پورے پاکستان میں ہوئی تو یقینا یہ ان کی آنکھیں کھول دینے کیلئے بہتر ہوگا. ہا ں یہ الگ بات کہ وہ اگر اپنی آنکھیں بند رکھنے چاہتے ہیں تو پھر یہ ان کی مرضی، ویسے انہیں کھیلوں اور کھلاڑیوں پر توجہ دینی چاہئیے جو ان کی بنیادی ذمہ داری ہے، رشتہ داریوں اور سیاستدانوں کے مانتے پھریں گے تو پھر ان ہاتھ تو کچھ نہیں آئے گا البتہ لوگ انہیں ضرور " کبوتر باز سجنا" ہی سمجھیں گے اور کہیں گے بھی.
#sports #directorate #kpk #kp #piegon #kabootar #bazi #kikxnow #digitalcreator #sajna
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 498763 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More