مغفرت کی شرائط

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
میرے محترم یاروں اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۝ (سورہ النساء 64 )
ترجمہ کنزالایمان ،
" اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہئیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں "
میرے محترم یاروں قران مجید کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالی نے ہمیں اپنی بخشش کے طریقے بتادیئے دوسرے لفظوں میں ہم اس طرح بھی کہ سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے تین شرائط رکھ دی ہیں اگر ہم ان شرائط پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو ہماری بخشش ہوسکتی ہے پہلی شرط یہ ہے کہ اگر نفس کے ہاتھوں اور شیطان مردود کے بہکاوے میں آکر ہم سے کوئی گناہ ہوجائے لیکن بعد میں افسوس بھی ہو ندامت بھی ہو اور دل میں خدا کا خوف پیدا ہوجائے تو ہمیں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا دوسری شرط یہ ہے کہ پھر بارگاہ خداوندی میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا ہوگی اور تیسری شرط یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول ہماری شفاعت کردیں شفارش کردیں تو پھر اللہ رب العزت بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آیئے اب ہم ان شرائط کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں آج ہم پہلی شرط کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اور باقی شرائط پر انشاء اللہ اگلی تحریر میں سمجھیں گے پہلی شرط یعنی جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ایک جگہ رب العزت نے فرمایا کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جب یہ اپنی جانوں پر ظلم کرجائیں تو تمہارے حضور حاضر ہوجائیں جناب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شفاعت ہو یا عشق آپ علیہ وسلم پر مکمل یقین اور بھروسہ جتنا صاحبئہ کرام علیہم الرضوان کو تھا اتنا شاید ہی کسی کو تھا قران مجید کو جتنا صاحبیہ کرام نے سمجھا اور اس کے نزول ہونے کے سارے ماحول سے جتنے صاحبئہ کرام واقف تھے اتنا کوئی نہیں اس آیت کو جتنا صاحبئہ کرام نے سمجھا اتنا کسی نے نہیں سمجھا ہوگا تو اس شرط کو سمجھنے کے لئے ہم صاحبئہ کرام کی زندگی کی طرف چلتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کے جنت کی کیاری میں موجود چند ستون ایسے ہیں جن پر غالبا" آج بھی کچھ کتبے لکھے ہوئے ہیں اور ان ستونوں سے اسلام کی تاریخ کے کئی یادگار اور حسین واقعات وابستہ ہیں ایک ستون ایسا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ٹیک لگا کر دور دراز سے آئے ہوئے قبائل کے لوگوں کو اپنی زیارت کا شرف عطا کیا کرتے تھے اور ایک ستون ایسا بھی ہے جو آپ علیہ وسلم کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا اور جس کے بارے میں مولانا رومی علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ یہ ستون حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی جدائی میں ایسے رویا تھا جیسے کوئی اپنے محبوب کی جدائی میں روتا ہے جبکہ وہاں پر موجود ایک ایسا ستون بھی ہے جس کو ستون ابولبابہ کہتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اصل میں حضرت ابولبابہ بن عبدالمنزرضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے جو سرکار مدینہ علیہ وسلم کے دربار کے ایک خاص اور باوقار رازدار تھے جنگ خندق کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنے بدترین دشمن قبیلہ بنو قریظہ کا محاصرہ کیا تو یہودیوں نے تنگ آکر آپ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ ابولبابہ کو بھیج دیجئے تاکہ ہم اپنے مسقبل کے بارے میں ان سے مشورہ کرلیں حضرت ابولبابہ کے اسلام لانے سے قبل ان یہودیوں سے بڑے گہرے اور دوستانہ تعلقات تھے اور ان کے کافی اہل و عیال اور مال و اسباب بھی اس قلعہ میں اب بھی موجود تھے لہذہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ علیہ وآلیہ وسلم نے ابولبابہ علیہ الرحمہ کو بھیجنے سے پہلے بتادیا تھا کہ یہودی ہمارے دوست کبھی نہیں ہوسکتے یہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے رسول کے دشمن ہیں ان کی سزا سوائے قتل کے کچھ بھی نہیں حضرت ابولبابہ علیہ الرحمہ جب وہاں پہنچے تو یہودی آپ علیہ الرحمہ کو دیکھکر رونے لگے اور آپ علیہ الرحمہ سے اپنے مسقبل کے بارے میں مشورہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم آپ علیہ الرحمہ کے پیغمبر اسلام کی بات قبول کرتے ہوئے قلعہ کا پھاٹک کھول دیں ؟ تو آپ علیہ الرحمہ نے پرانی دوستی اپنے اہل وعیال اور مال و اسباب کی وجہ سے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا راز فاش کردیا اپنے گلے پر ہاتھ پھیر کر اشارے سےیہودیوں کو بتادیا کہ انہوں نے تم لوگوں کے لئے قتل کا فیصلہ فرمایا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جیسے ہی حضرت ابولبابہ علیہ الرحمہ نے دربار نبوت کا ایک مخفی راز فاش کیا تو وہیں حضرت جبریل علیہ الصلوتہ ولسلام اللہ تبارک وتعالی کا عتاب سے بھرا ہوا فرمان لیکر زمین پر اترے اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر آیت نازل ہوئی
(سورہ انفال 27،28 ) ترجمعہ کنزالایمان
" اے ایمان والوں اللہ اور رسول سے دغا نہ کرو نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت کرو اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد سب فتنہ ہے اور بیشک اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے "
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ابولبابہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ابھی میرے قدم ہٹنے بھی نہ پائے تھے کہ میرے ضمیر نے مجھے جھنجھوڑا کہ واقعی میں نے اللہ اور اس کے رسول کی امانت میں خیانت کرکے ان سے دغا کرکے بہت بڑا گناہ کیا ہے لہذہ اپنے اس خطا کے سبب آپ علیہ رحمہ بہت نادم اور پشیمان ہوگئے تو آپ علیہ الرحمہ مدینہ کی طرف بھاگے اور مسجد نبوی پہنچ کر اپنے آپ کو ایک ستون کے ساتھ بندھوالیا اور قسم کھائی کہ جب تک میرا رب میرے اس خطا کو معاف نہیں کردیتا اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم خود اپنے دست مبارک سے میری رسی نہیں کھول دیتے تب تک نہ کچھ کھائوں گا نہ پیوں گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ چھ دن اور چھ راتیں وہاں رہے نماز اور انسانی حاجتوں کے سبب ان کی بیوی صاحبہ رسی کھول دیا کرتیں اور پھر وہ ہی دوبارہ باندھ کر چلی جاتیں بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے قوت سماعت جاتی رہی اور آنکھوں کی روشنی بھی جاتی رہی اسی حالت میں ایک دن جب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف فرما تھے صبح صادق کا وقت تھا کہ آپ علیہ وسلم کو ناگہاں ہنسی آگئی حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ خداوند کریم آپ علیہ وسلم کے دانتوں کو ہمیشہ ہنستا رکھے بھلا اس وقت آپ علیہ وسلم کو ہنسی کیوں آرہی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے ام سلمہ ( رضی اللہ عنہا ) حضرت ابولبابہ کی دعا اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں قبول ہوگئی اور ابھی ابھی مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ ترجمعہ کنزالایمان
" اے ایمان والوں اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہیں وہ دے گا جس سے حق کو باطل سے جدا کرلو تمہاری برائیاں اتار دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے "
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی یہ سن کر بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں آپ رضی اللہ عنہا نے خوشی میں عرض کیا کہ یارسول اللہ کیا میں حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو بشارت سنادوں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری یہ ہی مرضی ہے تو جائو سنادو تو اسی وقت حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے حجرے کی چوکھٹ پر کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے ابولبابہ تمہیں بشارت ہو کہ تمہاری دعا قبول ہوگئی ہے آپ رضی اللہ عنہا کی آواز سن کر لوگ مسجد نبوی کی طرف حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو ستون سے کھولنے کی غرض سے بھاگ کھڑے ہوئے لیکن جب لوگ وہاں پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ بھرائی ہوئی آواز میں آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ خدا نے میری توبہ قبول کرلی ہے لیکن خدا کی قسم جب تک میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم خود اپنے دست مبارک سے یہ رسی نہیں کھولتے مجھ گناہگار اور مجرم کو تسلی نہیں ہوگی لہذہ کوئی آگے نہ آئے گویا آپ مزید صبح صادق تک یوں ہی کھڑے رہے اور لوگ بھی وہاں جمع ہوکر اپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے آمد کے منتظر کھڑے رہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نماز فجر کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے تو حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو انتہائی پیار و محبت سے دیکھتے ہوئے تبسم کے ساتھ مسکرائے اور پھر آپ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حضرت ابولبابہ کی رسی کو کھول دیا ( صاوی ج 1 صفحہ 122 ) ۔
جناب دیکھا کہ صاحبی رسول حضرت ابولبابہ بن عبدالمنزر رضی اللہ عنہ سے جب خطا ہوگئی تو وہ مکہ مکرمہ میں یعنی اللہ کے گھر اپنے گناہوں کو بخشوانے نہیں گئے اور وہاں کے کسی ستون میں اپنے آپ کو نہیں بندھوایا بلکہ خطا کا احساس اور ندامت ہوئی تو آپ علیہ الرحمہ سیدھے مدینہ منورہ تشریف لے گئے کیوں کہ مذکورہ آیت کے مطابق وہ جانتے تھے کہ گناہوں اور خطائوں کی بخشش کی پہلی شرط سرکار علیہ وسلم کے دربار میں حاضری ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس لئےوہاں پہنچ کر اپنے آپ کو ستون میں باندھ دیا تاکہ ہر وقت سرکار علیہ وسلم آپ علیہ رحمہ کو دیکھتے رہیں آپ علیہ رحمہ کی آہ زاری پر جب انہیں رحم آجائے گا تو میرا رب بھی مجھے معاف کردے گا اور بخش دے گا اور پھر آپ نے دیکھا کہ رحمت الللعالمین کا دل کیسے آپ علیہ الرحمہ کی گریا و زاری کو دیکھکر پسیج گیا اور رب العلمین نے کیسے آپ علیہ الرحمہ کو بخش دیا اور اس پر کرم خاص تو دیکھیں کہ آج وہ ستون ستون لبابہ کے نام سے منسوب یے اور اس کو ستون توبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہتے ہیں کہ اگر کسی سے کوئی گناہ یا جرم ہوجائے تو وہ یہاں دو رکعت نفل ادا کرکے صدق دل سے اللہ تبارک وتعالی کے حضور توبہ کرے تو اس کی توبہ کو حضرت ابولبابہ کے طفیل اللہ تبارک وتعالی ضرور معاف فرما دے گا انشاء اللہ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ صرف حضرت ابولبابہ علیہ الرحمہ کی بات ہی نہیں بلکہ کسی بھی صحابی سے اگر کوئی خطا سرزرد ہوجاتی تو وہ دربار رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر حاضر ہوجاتے اور توبہ و استغفار کرتے جب سرکار علیہ وسلم کی نظر کرم ہوجاتی اور دعائے مغفرت فرمادیتے تو اللہ رب العزت بھی انہیں بخش دیتا کیوں تمام صحابئہ کرام علہیم الرضوان یہ بات جانتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ معافی اور مغفرت کے لئے پہلے دربار رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر حاضری شرط ہے چنانچہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ مغفرت کی پہلی شرط دربار رسول علیہ وسلم کی حاضری ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابئہ کرام علیہم الرضوان کو تو یہ آسانی تھی کہ ان کے دور میں سرکار علیہ وسلم ظاہری طور پر حیات تھے لہذہ وہ دربار رسالت میں اپنے گناہوں کی مغفرت کے سبب حاضر ہوجاتے لیکن جب آپ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا اور آپ علیہ وسلم ظاہری پردہ فرما گئے قبر انور میں آرام فرمانے کے لئے رخصت ہوگئے تو اب گناہگار کیا کریں اور جائوک یعنی آپ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضر ہوجائیں والی شرط پر عمل کیسے کریں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب کسی گناہگار سے کوئی گناہ سرزرد ہوجائے تو مدینہ پاک کی حاضری کا شرف حاصل کرتے ہوئے آپ علیہ وسلم کے قبر انور یعنی روزہ مبارک کی زیارت ہر حاضر ہوجائیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت کی درخواست پیش کردیں تو انشاءاللہ اللہ معاف کرنے والا ہے اور تاریخ اسلام میں کئی شوائد اور واقعات ملتے ہیں کہ جب تابعین میں سے کسی سے کوئی غلطی یا گناہ سرزرد ہوجاتا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے روزے پر حاضری دیکر عرض کرتے تھے کہ ہم اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی پہلی شرط یعنی جاء وک پر عمل کرتے ہوئے آپ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس بات کی دلیل کے طور پر ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں جو آپ نے سنا یا پڑھا ہوگا ایک اعرابی مسلمان جس کا سینہ توحید الہی کا خزینہ اور دل محبت رسول کا مدینہ تھا وہ جب روزہ اقدس پر حاضر ہوا تو سب سے پہلے انتہائی محبت اور عقیدت کے ساتھ روزہ اقدس کی خاک پاک کو اپنے سر پر ڈالنے لگا پھر انتہائی سوزو گداز کے ساتھ رورو کر عرض کرنے لگا کہ یارسول اللہ میں نے بیشک گناہ کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اس لئے اللہ کے فرمان کے مطابق آپ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے ان گناہوں کی مغفرت کے حصول کے لئے حاضر ہوگیا ہوں اس لئے یارسول اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک وتعالی سے میرے گناہوں کی مغفرت کروادیجیئے پھر فرمایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم آپ کے روزے پر میری جان بھی قربان جس میں آپ آرام فرمارہے ہیں اس میں سکونت ہے پاک دامنی ہے سخاوت ہے اور کرم ہے مفسرین فرماتے ہیں کہ جب وہ اعرابی مسلمان اپنی عرضی پیش کرچکا تو قبر انور سے یہ آواز ائی کہ اے اعرابی تو بخش دیا گیا ( خزائن العرفان ص 105 وغیرہ )۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دربار رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر حاضر ہوکر دعا مانگنا اور اس کے قبول ہونے کی دلیل پر امام اہل سنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
مجرم بلائے آئے ہیں جاء وک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
اب یہاں ایک سوال یہ بھی آجاتا ہے کہ صحابئہ کرام علیہم الرضوان تو آپ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مسجد نبوی شریف میں تشریف لاکر اپنی مغفرت کی عرضی پیش کردیا کرتے اور بعد میں آنے والے تابعین تباتابعین اولیاء کرام اور بزرگان دین اور صاحب استطاعت لوگ روزہ انور پر حاضر ہوکر جاء وک کی شرط پر عمل کرلیا کرتے لیکن وہ گناہگار مسلمان جو مفلس و قلاش ہیں اور مدینہ منورہ سے ہزاروں میل دور ہیں جو روزہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی کی کوئی سبیل نہیں رکھتے تو وہ اللہ تبارک وتعالی کی اس پہلی شرط پر عمل کس طرح کریں گے اور ان غریبوں کی اپنی مغفرت کے لئے یہ شرط اول کس طرح پوری ہوگی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایسے لوگوں کے لئے جو طریقہ مختص کیا گیا ہے وہ انتہائی آسان ہے کہ ہر دم ہر جگہ اور ہر مسلمان کے لئے آسان ہے خواہ وہ گوشہ نشین فقیر ہو یا تخت نشین بادشاہ مشرق میں رہنے والا ہو یا مغرب کا کوئی باشندہ کوئی سمندر میں کشتیوں پر سوار ہو یا ہوا کے دوش پر فضائی سفر میں ہو کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو کسی حال میں بھی ہو وہ دربار رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر حاضری دے سکتا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ ایسا مسلمان جب بھی بارگاہ خداوندی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو عرض کردے کہ اے رب العالمین میں تیرے محبوب علیہ وسلم کو تیرے دربار بے کس پنہا میں وسیلہ بناکر اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں بس جیسے ہی ایک مسلمان اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں پیش کردیتا ہے تو سمجھلو کہ وہ دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوگیا اور اس نے پہلی شرط پوری کردی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کا مانگنے اور اس کےقبول ہونے کی سب سے پہلی سنت حضرت آدم علیہ السلام کی ہے کیوں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام اجتہادی خطا کے سبب جنت سے زمین پر تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے کم و بیش 300 سال تک ندامت اور اللہ تبارک وتعالی کے خوف کے سبب آسمان کی طرف نظر نہیں ڈالی اور توبہ و استغفار میں روتے رہے جب آپ علیہ السلام اسی فکر میں تھے تو آپ علیہ السلام کو یاد آیا کہ جب اللہ تبارک وتعالی نے انہیں تخلیق کیا اور آنکھ کھولی تو آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ عرش پر لکھا یوا ہے " لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ " تو آپ علیہ السلام نے سوچا کہ اگر اللہ رب العزت کے نام کے ساتھ یہ محمد کانام شامل ہے تو ضرور ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہوگا اور یہ اللہ رب الکائنات کو سب سے زیادہ عزیز ہوگا تو آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے مالک ومولا تجھے تیرے نام کے ساتھ جڑے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا واسطہ جن کا مرتبہ اور بزرگی تجھے سب سے زیادہ عزیز ہے میری خطا کو معاف فرمادے تو اللہ تبارک وتعالی نے آپ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مانگی گئی حضرت آدم علیہ السلام کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ اے آدم تم نے صحیح کہا یہ میرے محبوب کا نام ہے جو مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو میں تمہیں بھی پیدا نہیں کرتا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مجھے امید ہے کہ اپنے گناہوں سے معافی اور مغفرت کے لئے اللہ تبارک وتعالی نے جو شرائط عائد کر رکھی ہیں ان میں پہلی شرط کو بہت اچھی طرح سے ہم نے سمجھ لیا ہوگا اور یہ بھی سمجھ لیا ہوگا کہ دربار اقدس کی حاضری کے جو تین درجات ہیں ان میں تیسرا درجہ یعنی سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو وسیلہ بنا کر ہم ہر جگہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تبارک وتعالی کے حضور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرسکتے ہیں کیوں کہ مدینہ ہم سے دور ہے لیکن مدینہ والا نہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
اگرچہ ہے مدینہ کافی مسافت
نہیں دور لیکن یہ بعد مکانی
خلوص و محبت کو قاصد بنالو
وہیں سے سنیں گے وہ ساری کہانی
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں انشاءاللہ زندگی رہی تو باقی دو شرائط پر ہم اگلی تحریر میں پڑھیں گے اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہماری خطائوں کو اپنے پیاروں اور خاص بندوں کے طفیل معاف فرمائے آمین آمین بجاء الامین الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسل
 

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 76214 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.