روشن مستقبل کے لئے تعلیمی اصلاحات ضروری

 نیا تعلیمی سال شروع ہوتے ہی مارکیٹ سے نصابی کتب کی دستیابی مشکل بن جاتی ہے۔ صوبوں اور وفاق میں یکساں تعلیمی نصاب پر اتفاق ہونے کے بعد پرائمری جماعتوں میں گزشتہ سیشن سے یکساں نصاب کی پڑھائی شروع کی گئی۔ کورونا نے تعلیم کا نظام درہم برہم کئے رکھا۔ بعض سکولوں نے آن لائن سسٹم متعارف کیا۔ مگر یہ بھی ان کی فیس کی حد تک خانہ پری اور جواز تک محدود رہا۔ بچوں کے دو قیمتی سال متاثر ہوئے۔ قومی نصابی کونسل متحرک تھی۔ بلاشبہ یکساں قومی نصابسب کی خواہش ہے۔ یہ طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے میں کتنا معاون ثابت ہوگا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ یکساں قومی نصاب میں زبان کے مسئلے پر کوئی ابہام نہ ہو، جس زبان میں بچے کو بہتر سمجھنے میں آسانی ہو، اساتذہ اسی زبان میں پڑھائیں ۔ انگریزی کو غیر ملکی زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔ وفاقی حکومت ماڈل ٹیکسٹ بک تیار کررہی ہے جسے تمام صوبوں اور اکائیوں کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ صوبے اضافی مواد بھی متعارف کرا سکتے ہیں، تاہم یہ خیال رکھا جائے کہ بچوں پر اضافی بوجھ نہ پڑے۔ پبلشرز کتابوں کی اشاعت سے متعلق اخراجات سے پریشان ہیں۔ اگر ایک کتاب کی اشاعت کے لئے متحدہ علماء بورڈ، بیرونی جائزہ کمیٹی، ٹیکسٹ بک بورڈکو این او سی کی مد میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے دینا پڑیں تو وہ اسی کی آڑ میں مہنگی کتب مارکیٹ میں لائیں گے۔ اگر یکساں نظام تعلیم کا بنیادی مقصد تعلیم کے حصول میں ناانصافیوں کا خاتمہ اور تعلیم کے میدان میں طبقاتی خلیج کا سدباب کرنا ہے توپھر مہنگی تعلیم اور اجارہ داری سسٹم کا خاتمہ کرنا ضروری ہو گا۔ تعلیمی ادارے نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور ذہن وکردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مستقبل کو روشن بناتے ہیں۔ان کا مقصدصرف کاروبار یا کمائی نہیں ہوتا۔ یہ دکانیں یا سٹورز نہیں ہوتے۔ اس لئے سکول کے انتخاب میں احتیاط لازمی سمجھی جاتی ہے۔

جب نیا تعلیمی سال شروع ہو تا ہے ، والدین کتابیں، سٹیشنری، یونیفارم، سکول بیگز، وغیرہ خریدنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کتب خانوں اور سٹیشنری کی دکانوں پر رش لگ جاتا ہے۔تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے ہی قوموں کا مستقبل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ اس پر حساس قومیں بہت توجہ دیتی ہیں۔ لیکن آج کی تعلیم اور تعلیمی نظا م پڑھے لکھے ان پڑھ پیدا کر رہا ہے۔ ہم انسان کو ایک اچھا و ذمہ دارشہری بنانے کے بجائے اسے کمائی کی مشین بنا رہے ہیں۔ ہم تعلیم کو تجارتی مقصد کے تحت ہی دیکھتے ہیں۔ کمائی جس شعبہ میں زیادہ ہو، اس کا رحجان زیادہ ہوتا ہے۔بعض لوگ پڑھے لکھے بیروزگاروں کو دیکھ کر بچوں کو سکول جانے سے روک دیتے ہیں۔یہ گریجویٹ، ماسٹرز ، ڈگریاں رکھنے کے باوجود ڈگریاں ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں ماپ رہے ہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچے کوحوش سنبھالنے پر کسی ہنر یا کام پر لگا دیا جائے۔یہ اس طبقہ کا تعلیم سے اظہار ناراضی ہے۔

تعلیمی نصاب یکساں نہ ہونے سے ہر ایک کاا پنا نصاب ہے۔نگرانی اور قواعد و ضوابط کے بغیر قوم کا مستقبل تباہ کرنے والوں کو من مانی کی اجازت ملی ہوتی ہے۔ یا اس میں متعلقہ حکام بھی شریک ہوتے ہیں۔ بار بار کی یقین دہانیوں ، وعدوں اور اعلانات کے باوجود ایک نصاب تعلیم نہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ جیسے تعلیم وتربیت کو سنجیدہ ہی نہیں لیا گیا۔صرف این ٹی ایس یا کسی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات سے نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔ ان سروسز کی معتبریت یا کریڈیبلٹی پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی بہتات میں نجی تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ نجی سیکٹر قابل قدر ہو گا اگر یہ کاروبار سے اوپر اٹھ کر دیکھے۔یکساں تعلیمی نصاب سے ذہنی انتشار اور خلفشار پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ تا ہم اصلاحات کی کافی گنجائش ہے۔ معیار تعلیم کا مطلب ہم صرف زیادہ یا کم نمبرات یا نتائج کے حساب سے لیتے ہیں۔ رٹہ سسٹم ہے۔ درسی کتب اور نصاب مکمل نہیں کیا جاتا۔ چند سوال بچوں کو رٹنے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔بچوں کو مضمون کو سمجھانے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔یہ انتہائی خطرناک ہے۔

علم کے بجائے ہم رٹہ نسل پیدا کر رہے ہیں۔ریسرچ پر توجہ نہ دی گئی تو اس تعلیم کا فائدہ نہ ہو گا۔ہر گلی محلے میں آئے روز ایک کمرہ سکول کھل رہے ہیں۔سکولوں نے من پسند نصاب مقرر کر رکھے ہیں۔ان کا مقصد جیسے صرف کمائی بن گیا ہے۔ معصوم بچوں پر بھاری کتابیں لادھ دی جاتی ہیں۔ انہیں کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔والدین کے پاس بچوں کے لئے و قت نہیں۔کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں۔ ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ قد نہیں بڑھتا۔ شریانوں پر دباؤ سے خون کی گردش کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ خون کی گردش روکنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسمانی نقصان ہے۔ سب سے بڑا اور تباہ کن نقصان زہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک سمجھنے کے بجائے رٹنے کی پریشانی۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت دباؤ اور ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔ اب تو کئی بچے اپنے ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین ان کا کتابوں بھرا بستہ لے کر چلتے ہیں۔ جو بچہ بچپن سے دوسروں پر انحصار کا عادی ہویا اپنا بوجھ والدین پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہو تو بڑا ہو کر اس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنے کی یہ حوصلہ شکنی ہے۔

بعض سکولوں کا کتب خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ جیسے ساز باز ہوتاہے۔یا یہ کمیشن لیتے ہیں۔یا تحائف کے لئے مک مکا ہوتا ہے۔ ایک کتاب کی بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔ زیادہ خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا یہی طریقہ واردات ہے۔ وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ، غنیمت ہے۔ یہ ساز باز اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔ جو والدین نرسری کلاس کے بچوں کی کتابیں پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کی یونیفارم، لنچ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیسے کریں گے۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری کی آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔بعض ادارے ڈونیشن کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے والا نہیں۔ اس پر مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم دکان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے والدین کو وہاں من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول کراچھا رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا ہے۔ جب تک وزیر ، مشیر، سیکریٹری،تمام سرکاری ملازمین اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے اور علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی پابندی نہیں کرتے تب تک سرکاری سکولوں ، ہسپتالوں کا معیار بلند نہیں ہو سکتا ۔ اس سے پہلے تعلیمی پالیسی پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔عمران خان حکومت میں شفقت محمود سنجیدہ اور تعلیم یافتہ سمجھے جاتے تھے۔ وہ بھی اس پر توجہ نہ دے سکے۔ دینی تعلیم کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس سے بچوں کی اخلاقیات درست ہوں گی۔تعلیم وفاق کے پاس رہے تو ملک بھر میں قومی تعلیمی پالیسی تشکیل کامیاب گی۔ سکولوں کی رینکنگ کا نظام ہو۔انکریمنٹ ترقیابی کارکردگی سے مشروط ہوں، سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے بچے پرائیویٹ اداروں کے بجائے اپنے ادارے میں داخل کریں۔ وزیر، مشیر،بیوروکریٹس ، اعلیٰ عہدیدار اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری ادارے میں داخل کریں، تب بہتری متوقع ہے۔ تعلیمی نصاب ایک ہو،تعلیم کے ساتھ تربیت ہو، تو یکساں تعلیمی نصاب قومی سوچ پیدا کر نے میں مددگار ثابت ہو سکے گا۔

آج کے دور میں ہم نے معصوم بچوں کو کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔والدین کے پاس بچوں کے لئے وقت نہیں۔گھر کا ہر فرد، مرد و خواتین کو فکر روزگار ہے۔ ضروریات زندگی بڑھ رہی ہیں۔ لائف سٹائل اور طرز زندگی بدل رہے ہیں۔ بدلتی زندگی میں تعلیم و تربیت پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔ بچے توجہ کا مرکز نہیں بن رہے۔ والدین کی ترجیحات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ علم زیادہ اور تربیت کم ہو رہی ہے۔ سکول بھی ریٹنگ پر توجہ دیتے ہیں۔ نصاب کی مکمل کتاب کے بجائے بچے کو چند مخصوص سوالات رٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پھر وہی سوالات امتحان میں آتے ہیں۔ اس لئے بچے تعلیم کے بجائے چند سوال رٹ کر 90فیصد سے زیادہ نمبرات لیتے ہیں۔ سکول اور اساتذہ کی بھی نیک نامی ہوتی ہے اور ان کی ریٹنگ بھی بڑھتی ہے مگر بچہ کورا کا کورا رہ جاتا ہے۔ کتابیں علم کا سمندر ہیں۔ مگر کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں۔ ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ قد نہیں بڑھتا۔ شریانوں پر دباؤ سے خون کی گردش کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ خون کی گردش روکنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسمانی نقصان ہے۔کئی بچے اپنے ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین ان کا کتابوں بھرا بستہ لے کر چلتے ہیں۔ بچہ بچپن سے ہی دوسروں پر انحصار کا عادی ہوجاتا ہے یا اپنا بوجھ والدین پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بڑا ہو کر اس کی کیفیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنے کی یہ حوصلہ شکنی ہے۔

سب سے بڑا اور تباہ کن نقصان ذہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک سمجھنے کے بجائے رٹنے کی پریشانی۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت دباؤ اور ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔اس کا نظام ہضم متاثر ہوتا ہے۔ رہی سہی کسر پاپڑاور غیر معیاری خوراک نکال دیتی ہے۔ بچے مصالحہ جات اور چٹ پٹی لذت میں پڑ کر گھر میں تیار غذا کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض سکولوں کا کتب خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ جیسے ساز باز ہوتاہے یا یہ کمیشن لیتے ہیں۔یا تحائف کے لئے مک مکا ہوتا ہے۔ ایک کتاب کی بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔ زیادہ خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا یہی طریقہ واردات ہے۔ وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ، غنیمت ہے۔ یہ ساز باز اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔ کرپشن ہے۔ جو والدین نرسری کلاس کے بچوں کی کتابیں پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کو یونیفارم، لنچ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرنے میں مالی پریشانی ہو گی۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری کی آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔بعض ادارے ڈونیشن کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے والا نہیں۔ اس پر مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم سٹور کے ساتھ معاہدہ کر کے والدین کو وہاں من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ والدین اپنی مرضی سے کتابیں، کاپیاں، وردی بھی خرید نہیں سکتے۔ سکول کتابوں اور کاپیوں پر اپنے سکول کی تشہیر کے لئے مونو گرام شائع کراتے ہیں۔ لیکن اس کی قیمت والدین سے بطور اضافی چارج وصول کی جاتی ہے۔

جس استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول کراچھا رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین بشمول وزیر ، مشیر، سیکریٹری، ڈائریکٹرزپر ان کے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے اور علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی پابندی ہوتو سرکاری سکولوں ، ہسپتالوں کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ہمارے وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم ، وزارت، سیکریٹریٹ کے افسران کے بچے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھیں گے تو ان سکولوں کا معیار کون بلند کرے گا۔پالیسی سازوں کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اور وہ سرکاری سکولوں کی پالیسی سازی میں لگائے گئے ہیں۔مستقبل کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیاہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے تعلیمی پالیسی پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔جو حکومت آتی ہے وہ سیاست پر توجہ دیتی ہے۔قوم کے مستقبل کی کم فکر کرتی ہے۔قومی سوچ میں ہم آہنگی کے لئے یکساں نصاب ، ہنر مندی کی تعلیم پر ہنگامی بنیاوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ دینی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے سے بچوں کی اخلاقیات درست ہوں گی۔تعلیم وفاق کے پاس رہے تو یکساں قومی تعلیمی پالیسی تشکیل پاسکے گی۔ سکولوں کی رینکنگ کا نظام ہو۔ہماری یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں سب سے نیچے ہیں۔ریسرچ، ایجادات کی فکر نہیں۔اس لئے انکریمنٹ، ترقیابی کارکردگی سے مشروط ہو۔ پرائیویٹ سیکٹر کی بھی خدمات ہیں مگرسرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ ، سرکاری افسران اپنے بچے بھی سرکاری اداروں میں داخل کریں۔ بیوروکریٹس ، اعلیٰ عہدیدار اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری ادارے میں داخل کریں۔ تب بہتری متوقع ہے۔ صرف کمانے پر توجہ کافی نہیں،تعلیمی نصاب ایک ہو،تعلیم کے ساتھ تربیت، ہنر، ریسرچ پر توجہ ہو، تو یکساں تعلیمی نصاب قومی سوچ پیدا کر سکتا ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483933 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More