ناظرین ! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جس کو سن کر انسان
اپنے کانوں پر یقین نہیں کرتا۔ انسانی تاریخ میں ایسے ہی کہانیاں رکھنے
والے لوگوں نے داستانیں رقم کر رکھی ہیں۔ ان کی زندگی کی داستاں جہاں ہمارے
اندر ہمت، مستقل مزاجی اور اپنے مقصد کو پانے کے عزم کو ایک نئی جہت دیتی
ہے وہیں اس بات پر ہمارے یقین کو پختہ کرتی ہے کہ انسان جو ٹھان لے اس کو
حاصل کرنا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
ایسے ہی ایک کہانی آج ہم آپ کو سنائیں گے کہ جس کے نتیجے میں ہمیں یقین ہے
کہ آپ مایوسی سے دور ہوں گے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیےآپ کی کوششوں میں
مزید اضافہ ہوجائے گا ۔
یہ کہانی ہے برطانیہ کے اولمپک سٹار سر مو فرح کی۔
موفرح صرف 9 برس کے تھے جب انکو غیر قانونی طور پر برطانیہ لایا گیا اور
گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ موفرح کو لانے والوں نے
ان کا نام محمد فرح رکھ دیا تاکہ پہچان ممکن نہ ہوسکے ۔ انسانی اسمگلنگ
کرنے والا یہ گروہ ان کو جببوتی سے یہاں لائے تھے۔یہ مشرقی افریقہ میں
موجود ایک ملک ہے۔ موفرح کا کہنا ہے کہ ان کا صل نام ’حسین عبدی کہن‘ ہے۔
موفرح صرف نو برس کے تھے تو ایک وہ ایک عورت سے ملے جن سے ان کی واقفیت نہ
تھی۔ انھی کے ہاتھوں وہ برطانیہ لائے گئے اور یہاں بچوں کی دیکھ بھال کرنے
لگے۔تاہم عرصہ قبل ،طویل فاصلے کی دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لینے والے اس
سٹار نے یہ کہا تھا کہ وہ صومالیہ سے اپنے والدین کے ساتھ ایک پناہ گزین کے
طور پر برطانیہ آئے تھے۔تاہم ، انھوں نے اب اپنے بیان کی تردید کردی ہے۔
موفرح کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کبھی بھی برطانیہ نہیں آئے۔ ان کی ماں
اور دو بھائی ’صومالی لینڈ‘ کی ریاست میں اپنے خاندانی فارم پر رہتے ہیں۔ان
کے والد، عبدی، صومالیہ میں خانہ جنگی کے دوران فائرنگ کا نشانہ بنے اور
ہلاک ہو گئے۔ اس وقت مو فرح محض چار برس کے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو عورت سرموفرح کو برطانیہ لے کر آئی تھیں
انھوں نے مو فرح کو بتایا کہ انھیں رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے یورپ لے
جایا جا رہا ہے۔ مو فرح رشتے داروں سے ملنے کے لیے خاصے ’پرجوش‘ تھے۔ اس
وقت تک وہ ہوائی سفر سے آشنا بھی نہ تھے۔ اس عورت نے انھیں اپنا نام محمد
بتانے پر مجبور کیا ۔ اس عورت نے موفرح کے جعلی سفری دستاویزات تیار کیے ۔
جن میں ان کی تصویر کے سامنے ’محمد فرح نام درج کیا گیا۔اس کارروائی کے
نتیجے میں ان کو برطانیہ اسمگل کرلیا گیا۔
جب موفرح برطانیہ پہنچے تو وہ خاتون انھیں مغربی لندن کے علاقے ہانسلو میں
اپنے فلیٹ پر لے گئیں اور ان سے کاغذ کاوہ ٹکڑا چھین لیا، جس میں ان کے
رشتہ داروں سے رابطے کی تفصیلات درج تھیں۔موفرح کے سامنے اس خاتون نے ان
تمام کاغذات کو پھاڑ کر ڈبے میں ڈال دیا۔ اس وقت موفرح کو حساس ہوا کہ اب
وہ مصیبت میں پھنس چکے ہیں۔
شروعاتی دور میں موفرح کو کھانے پینے کے لیے گھر کا کام اور بچوں کی دیکھ
بھال کرنا پڑتی تھی۔ عورت نےموفرح کو دھمکی دی کہ اگر کبھی اپنے خاندان سے
دوبارہ ملنا چاہتے ہو، تواپنا منہ بند رکھنا۔
ان تمام واقعات سے تنگ اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار موفرح اکثر خود کو باتھ
روم میں بند کر کے گھنٹوں روتے رہتے تھے۔
موفرح کو اس خاندان کی جانب سے سکول جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ تاہم، جب وہ
12 سال کے ہوئے تو انھوں نے فیلتھم کمیونٹی کالج میں ساتویں جماعت میں
داخلہ لیا۔
کالج کے عملے کو بتایا گیا کہ موفرح صومالیہ کا مہاجر ہے۔
موفرح کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ سکول میں بغیر کسی تیاری کے داخل ہوا ۔
وہ انگریزی میں بات کرنے سےقاصر تھا۔ اس وقت تک موفرح جذباتی اور ثقافتی
طور پر تمام بچوں سے یکسر مختلف تھے ۔
یہاں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مو فرح کی (فزیکل ایجوکیشن کی) ٹیچر، ایلن
واٹکنسن، نے ان میں تبدیلی دیکھی۔ یہ تبدیلی خدا کی طرف سے موفرح کے لیے
ایک روشن مستقبل کی نوید تھی۔ موفرح کو ایتھلیٹکس ٹریک پر بھاگتے ہوئے ان
کے اساتذہ حیران رہ گئے۔
موفرح بذات خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کھیل ان کے لیے لائف لائن تھی
کیونکہ گھر میں وہ سخت ذہنی دباؤ کا شکار رہتے تھے اور اس زندگی سے بھاگنا
چاہتے تھے۔
آخر کار مو فرح نے اپنی ٹیچر کو برسوں سے چھپی اپنی حقیقت کے بارے میں
بتادیا ۔
اس انکشاف کے بعد ان کی ٹیچر نے سوشل سروسز سے رابطہ کیا اور مو فرح کی ایک
صومالی خاندان میں پرورش یقینی بنانے میں مدد کی۔اس دوران موفرح اپنے
خاندان کو یاد کرتےرہے۔
مو فرح نے نے ایک ایتھلیٹ کے طور پر اپنا نام بنانا شروع کیا اور 14 سال کی
عمر میں انھیں لٹویا میں ہونے والی ریس میں انگلش سکولوں کے مقابلے کے لیے
مدعو کیا گیالیکن ان کے پاس سفری دستاویزات موجود نہیں تھے۔ ان کی ٹیچر نے
انہیں برطانوی شہریت کے حصول میں مدد کیاور بالآخر آج دنیا انہیں ایک معروف
برطانوی اولمپک اسٹار کے نام سے جانتی ہے۔
اپنی اس کہانی کے بارے میں موفرح کا کہنا ہے کہ وہ سمگلنگ اور غلامی کے
بارے میں عوامی تاثرات کو چیلنج کرنے کے لیے اپنی کہانی سنانا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ بہت سارے لوگ ہیں جو بالکل اسی چیز سے
گزر رہے ہیں جو میرے ساتھ ہوا۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں کتنا خوش
قسمت تھا‘۔
موفرح کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ زندگی کے نامساعد حالات انسان کی
ہمت کو پرکھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ جو کوئی ڈٹ کر ان حالات کا سامنا کرلے تو
دنیا کی کوئی رکاوٹ اس کے اور اسکے مقصد کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
|