قبائلی یا ضم اضلاع، آدھے تیتر آدھے بٹیر اور کھیلوں کی وزارت

ضم اضلاع کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی اس بیوہ کی مانند ہے جس سے مزے تو ہر کوئی لینا چاہتا ہے مگر اسے اپنانے کا کوئی سوچتا بھی نہیں

پشتو زبان کا ایک محاورہ ہے چی نہ اگئی اچوی اور نہ بانگ وائی، یعنی ایسی مرغی جو نہ انڈے دیتی ہے اور نہ اس کی اذان کی آواز کسی نے سنی ہے. یعنی نہ دائیں نہ بائیں،اورایبٹ آباد کے لوگوں کی زبان میں سجے اور کھبے بھی نہیں ایسی ہی صورتحال قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد کی ہیں، نہ ضم ہیں اور نہ ہی انہیں علیحدہ قبائل ماننے کوکوئی تیار ہیں، وفاق بجٹ میں اس کا حصہ دینے کو تیار نہیں اس صورتحال نے قبائلی علاقہ کہیں یا ضم اضلاع، کم و بیش یہی کردی ہے، یہ باتیں سیاست کی جانب نکل رہی ہیں لیکن اان چیزوں سے بالاتر ہم اپنے بلاگ میں حکومت اور بیورو کریسی کی ضم اضلاع کے کھلاڑیوں کیساتھ ہونیوالے ظلم پربات کرینگے جن کیلئے فنڈز نہیں، جن کیلئے میرٹ نہیں، جن کیلئے تعلیمی قابلیت نہیں،صرف کھیلوں کے میدان پراگر بات کی جائے تو یہاں پر بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب چل رہا ہے.

ایک زمانے میں یہاں پر قبائلی علاقے ہوا کرتے تھے جن کے انتظامی امور کی نگرانی گورنر کے ذمے تھی اور ورسک روڈ پشاور پر ایک بڑی سرکاری بلڈنگ میں قبائلی علاقوں کیلئے علیحدہ فاٹا سیکرٹریٹ ہوا کرتا تھا جو انضمام کے بعد ختم کردیا گیا لیکن آدھے تیتر آدھے بٹیر کے اس سسٹم نے کھیلوں کے نظام کو بھی آدھا ہی کردیا ہے.جنہوں نے فائدہ اٹھانا تھا وہ اس وقت بھی فاٹا سیکرٹریٹ میں واقع کھیلوں کی وزارت میں پراجیکٹ میں غیر مقامی افراد بھرتی کرائے، مہمند اور خیبر سمیت وزیرستان میں ڈائریکٹروں کے آگے منشی گیری کرنے والے، صاحب کے ڈرائیور بن کر چمچے جعلی ڈاکومنٹس پر کھیلوں کے پراجیکٹ میں بھرتی ہوگئے اس وقت بھی قبائلی نوجوانوں کو کھیلوں کی جانب نہیں لایا گیا اور پھر انہی نوجوانوں نے جب منفی سرگرمیوں کا سہارا لیا تو انہیں قید و بند سمیت مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ ان کیلئے مختص سیٹوں و آسامیوں پر میدانی علاقوں کے لوگوں نے قبضے کئے اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کھیلوں کے نوجوانوں کو ویسے ہی چھوڑا گیا، اور جو بھرتیاں بھی مستقل کی گئی.اگر آج بھی ان کے سامنے انگریزی زبا ن میں کوئی لیٹر آجائے، یا پھر انہیں یہ کہا جائے کہ انگریزی زبان میں لیٹر لکھ دو، تو خیر خیریت ہے، البتہ ان پراجیکٹ میں عارضی طور پر بھرتی ہونیوالوں کی موجیں لگ گئی، کبھی کاغذات میں سٹیڈیم بن گئے، کبھی کاغذات میں کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے گئے اور کبھی ٹینڈر پر ٹینڈر کئے گئے لیکن ہوا کچھ نہیں البتہ سفارشوں پر بھرتی ہونیوالے ان لوگوں کے جثے بھی بڑھ گئے او ر انکی املاک بھی بڑھ گئی اور یہ سب کچھ کھیلوں کی وزارت میں ہوا.

ضم ہونے کے بعد قبائلی نوجوانوں کو یہ امید ہو چلی تھی کہ چلیں اب تو شائد میرٹ پر سب کچھ ہوگا اور ان کے ساتھ سوتیلے بھائی جیسا سلوک نہیں ہوگا، ان کا حق نہیں مارا جائیگا لیکن قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو کھیلوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کی دکانداری بھی شروع ہوگئی، ضم ہونے کے بعد کھیلوں کے شعبے میں صرف اتنی تبدیلی آگئی کہ فاٹا سیکرٹریٹ سے کھیلوں کی وزارت میں ضم اضلاع کیلئے الگ جگہ فراہم کردی گئی، ہاں فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا جو قبل ازیں سفارشوں، چمچہ گیری پر پراجیکٹس میں بھرتی ہوئے تھے ان کے پراجیکٹ مکمل نہیں ہوئے لیکن انکی مستقلی کے احکامات جاری کردئیے گئے کسی نے ان کا ریکارڈ چیک کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی، کہ آیا سپورٹس مینجر سے لیکر کوچز کے عہدوں پر بھرتی ہونیوالے کتنے ایسے لوگ ہیں جو حقیقت میں کھیلوں سے وابستہ رہے ہیں، انہوں نے کبھی کسی کھیل کے میدان کا رخ بھی کیا ہے یا نہیں یا وہ اب بھی ڈیوٹیاں کررہے ہیں یا نہیں یا پھر پرائیویٹ طور پر اکیڈمیوں کو چلا رہے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں.سفارشوں پر بھرتی ہونیوالوں کا اخلاق اور کردار کیا رہا ہے، بہت سارے واقعات صنف نازک کے حوالے سے رپورٹ شدہ بھی ہیں.

ضم اضلاع کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی اس بیوہ کی مانند ہے جس سے مزے تو ہر کوئی لینا چاہتا ہے مگر اسے اپنانے کا کوئی سوچتا بھی نہیں. صوبے میں انضمام ہونے کے بعد کم از کم اتنا تو میرٹ کھیلوں کے شعبے سے وابستہ افراد میں کیا جاتا اور دیکھا جاتا کہ جنہوں نے ڈاکومنٹس جمع کروائے کیا وہ اصلی ہیں یا جعلی، اور ڈیپوٹیشن پر آنیوالوں نے فاٹا یعنی ضم اضلاع کے ڈائریکٹریٹ کو بیوہ کی طرح سمجھ کر ٹریٹ کرنا شروع کیا تھا اور اب بھی کررہے ہیں جس کی مثالیں بھی موجود ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کو اس بارے میں سوچ پیدا ہو، نہ ہی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ، نہ ہی محکمہ خزانہ اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ انہیں ضم سمجھتی ہیں نہ ہی قبائلی بلکہ ان علاقوں کو نہ انڈہ نہ اذان دینے والوں کی فہرست میں شامل کیا ہے.

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کوئی بھی کھلاڑی، آرگنائزر جب سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ آتا ہے تو انہیں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کا اپنا سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہے ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے، اپنے ڈائریکٹریٹ پر جائیں، اگر فاٹا ضم ہوا تو پھر الگ ڈائریکٹریٹ کی ضرورت ہی کیوں ہے، اور اگر الگ ڈائریکٹریٹ ہے تو پھر فنڈز کیوں نہیں دئیے جاتے، ان قبائلی علاقوں میں جاری سکیموں کی مانیٹرنگ کون کرتا ہے، ان پر کمیشن کون لیتا ہے،یہ وہ اہم سوال ہے جس سے بہت ساری چیزیں سامنے آتی ہیں، ضم اضلاع میں کھیلوں کے مختلف منصوبوں کی نگرانی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انجنیئرنگ ونگ کرتی ہے جہاں پر سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ سے "تجربہ کار" لوگ بھرتی ہوئے ہیں جنہیں "انتر منتر قلی قلنتر" ہر چیز کا پتہ ہے لیکن یہی سپورٹس ڈائریکٹریٹ قبائلی نوجوانوں کو "یہ ہمارا کام نہیں " میں الجھا کر اپنا کام نکالتے ہیں یعنی جہاں پر "خرچہ پانی سرکاری کمیشن کے نام پر "نکلتا ہے کنٹریکٹر سے براہ راست ڈیلنگ ہوتی ہیں. تو ضم اضلاع بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ با اختیار ہے لیکن اگر کھلاڑی، کھیل کے فروغ کی بات ہو تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے امتحان پاس کرنے والے بھی خاموش ہیں ان کے پاس اختیار نہیں، کیا یہ دوغلی پالیسی، منافقت اور قبائلی نوجوانوں کیساتھ ظلم اور زیادتی نہیں.

ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ پرمسلط ہونیوالے سفارشی اور پراجیکٹ میں بھرتی ہونیوالوں کا حال تو یہ ہے کہ ابھی بھی جعلی ڈاکومنٹس پر بھرتیوں کا عمل جاری ہے، کم و بیش دو ہفتے قبل نارتھ وزیرستان کے ایک انٹرنیشنل فٹ بالر جو کوچ کی حیثیت سے ریکروٹمنٹ کے عمل میں شامل تھا اسے باہر کیا گیا اس کا کیس ابھی بھی پشاور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن اندرون خانہ سارے ملے ہوئے ہیں کی صورتحال نے دہشت گردی سے متاثرہ اس نوجوان کو بھی پریشان کردیا، اس نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات پی ایم ایس افسر، جو کہ ماشاء اللہ ڈائریکٹر جنرل ہے سے ملنے کی کوشش کی تو اسے سیکورٹی اہلکار کے ذریعے اسی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر جنرل نے دھکے دے کر باہر نکال دیا،جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوگئی.کسی کی تکلیف یا مسئلہ دورکرنا الگ بات لیکن دہشت گردی سے متاثرہ ضم اضلاع کے نوجوان کیساتھ منفی رویہ کس طرف انہیں لے جائے گا شائد ان کا اندازہ ڈی جی سپورٹس خیبر پختونخواہ کو نہیں، کم از کم اخلاق سے بات تو کی جاسکتی ہے بھلے سے کسی کا کام ہو یا نہ ہو، لیکن حسن اخلاق بھی اللہ تعالی کی دین ہے، اپنے گریڈ سے اوپر لوگوں کے سامنے چمچہ گیری اور اپنے سے نچلے سطح کے ملازمین یا لوگوں کیساتھ فرعونیت ہماری بیورو کریسی کا خاصہ ہے.

قبائلی علاقوں کے کھلاڑی کہاں پر ہیں، ان میں فیمیل کھلاڑی کتنے ہیں، اس کا اگر صحیح ڈیٹا نکالا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کون کون سے لوگ اس ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ پر مسلط ہیں، جو اپنے اضلاع میں کام ہی نہیں کرسکتے، نہ ہی اپنے علاقوں سے کھلاڑیوں کو پیدا کرسکے ہیں، آج بھی اگر ریکارڈ چیک کیا جائے تو بیشتر کھیلوں کے مقابلوں میں مختلف سکولوں و کالجز میں پڑھنے والے ضم اضلاع کے طلباء ہی حصہ لیتے ہیں اور اگر فیمیل کھلاڑیوں کی بات آتی ہے تو پشاور کی تین بڑی فیمیل کالجز و ایک فیمیل یونیورسٹی زندہ باد..جہاں سے فیمیل کھلاڑیوں کو قبائلی علاقوں سے ظاہر کرکے لایا جاتا ہے، یا پھر اگر بات نکل جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباؤ و اجداد قبائلی علاقوں سے یہاں پر شفٹ ہوئے ہیں، اول تو یہ ہو نہیں سکتا اور اگر ہو بھی جائے تو پھر ضم اضلاع میں کام کرنے والے سپورٹس مینجرجو اب ڈی ایس او بن چکے ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے، ان کی بھرتی کا معیار کیا ہے، یہاں بھی بیورکریسی دوغلے پن کی پالیسی اپناتی ہے.

آنیوالے نیشنل گیمز میں ضم اضلاع کے کتنے کھلاڑی آئیں گے اس کا اندازہ تو ابھی تک نہیں ہوا لیکن ضم ہونے کے بعد ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے حقیقی کھلاڑی مختلف کھیلوں سے وابستہ کتنے ہیں وہاں پر دی جانیوالی سہولیات کتنی ہیں، یہ اور اس جیسے کتنے ہی سوال ہیں جس پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت انہی ضم اضلاع کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی خاموش ہیں، ان حالات میں یہ توقع رکھنا ہے کہ ضم اضلاع کے نوجوان منفی سرگرمیوں کی طرف راغب نہیں ہونگے ایک اچھا خواب ہی ہے اور خواب دیکھنے پر پابندی نہیں آخر کب تک قبائلی یا ضم اضلاع کے نوجوانوں کو" لارا لپہ "سے بہلایا جائیگا.

#kikxnow #digitalcreator #sports #merged #district #sportsnews #mojo #mojosports #pakistan #femalesports #malesports #nationalgames #tribalbelt #negativeiimpect

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497646 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More