پی ایس بی، فیس اضافہ، کیا ایک نگران سے کام نہیں چل سکتا


پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کے دعویدار وفاقی ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور نے کھیلوں کیلئے آنیوالے کھلاڑیوں سے وصولیاں تیز کرتے ہوئے سال 2023 کیلئے مختلف کھیلوں کی فیسوں میں اضافے کی تجاویز دی ہیں اورپروپوز فیسیں بھی متعین کردی گئی ہیں نئی تجویز کردہ فیسوں کے مطابق بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں سے قبل ازیں ایک ہزار روپے چارجز اور ماہانہ پانچ سو روپے وصول کئے جاتے تھے جبکہ انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں سے پندرہ ہزار روپے رجسٹریشن اور تین ہزار ماہانہ فیس وصول کی جائے، اسی طرح سکواش کی رجسٹریشن بھی ایک ہزار اور ماہانہ پانچ سو روپے ہیں جس میں بھی پندرہ ہزار رجسٹریشن اور تین ہزار ماہانہ فیس کرنے کی تجویز دی گئی ہیں ٹیبل ٹینس کی رجسٹریشن فیس دی گئی ہیں جو کہ مستقبل میں دس ہزار روپے اور تین ہزار روپے ماہانہ فیس وصولی کیلئے تجویز کی گئی ہیں..اسی طرح پی ایس بی نے کھیلوں کی سہولیات کیلئے جگہ دینے کی فیسوں میں بھی اضافے کی تجویز دی ہیں جو کہ دس ہزار روپے روزانہ سے لیکر بجلی کی استعمال کی رقم بھی شامل ہیں جبکہ جو ان کیساتھ الحاق نہیں رکھتے ان سے بیس ہزار روزانہ کی بنیاد پر چارج کئے جائیں گے جبکہ کھیلوں کے علاوہ دوسرے سرگرمیوں کیلئے پچاس ہزار روپے کی تجویز زیر غور ہے ہاسٹل میں کمرہ ایک ہزار سے ڈھائی ہزار روپے جبکہ کھیلوں سے تعلق نہ رکھنے والوں کیلئے تین سے چار ہزار روپے تک لینے کی تجاویز دی گئی ہیں

پی ایس بی پشاور سنٹر نے تین مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کیلئے فیسوں میں اضافے کی تجاویز تو دیدی ہیں مگر کھلاڑیوں کو کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کرنے والے ادارے نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ ٹریننگ کیلئے آنیوالے کھلاڑیوں کو ٹریننگ کو ن دینگے. کیونکہ سکواش میں صرف ایک کوچ ہیں جو مخصوص اوقات میں ٹریننگ کرتے ہیں جبکہ سکواش کے بیشتر کھلاڑیوں کوپرائیویٹ کوچ محب اللہ خان سکواش کمپلیکس میں ٹریننگ دی جاتی ہیں.اسی طرح بیڈمنٹن کا کوئی بھی کوچ پی ایس بی پشاور سنٹر کے پاس نہیں، اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچز یہاں پر بیڈمنٹن کی تربیت کیلئے آنیوالے کھلاڑیوں کی تربیت کرتے ہیں. ٹیبل ٹینس کیلئے جو ہال دیا گیا تھا اسے بھی پی ایس بی پشاور سنٹر کی انتظامیہ نے ان سے خالی کروا کر ایک پرائیویٹ جیم کو دے دیا ہے.پی ایس بی پشاور سنٹر کی انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ ٹیبل ٹینس کیلئے کوچ کون ہوگا اور کونسے ہال میں کھلاڑیوں کو تربیت دی جائیگی.

پی ایس بی کی جانب سے دئیے مجوزہ فیسوں میں اضافے سے یہ اندازہ تو بہت اچھی طرح کیا جاسکتا ہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اختیار کھونے والے پی ایس بی کو جو ملک میں کھیلوں کے فروغ کا سب سے بڑا دعویدار ادارہ بھی ہے انہیں کھیلوں اور کھلاڑیوں سے کتنی محبت اور رغبت ہے اور وہ اسے پرائیویٹائزیشن کی طرف لے جارہے ہیں. اور ان کی کوشش ہے کہ پیسے کمائے جائیں، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ جو سکواش کوچ ہے اسے قائم مقام ڈائریکٹر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے، جو ہاسٹل میں ویٹر ہے وہ بیڈمنٹن کے لڑکیوں کیلئے کبھی کبھار کوچ کا کردار ادا کرتا ہے. ٹیبل ٹینس کا ان کے پاس کوئی کھلاڑی تو کیا کوئی کوچ بھی نہیں، کم و بیس چالیس کے قریب سکواش کے کھلاڑی ہیں جنہیں ٹریننگ دی جاتی ہیں. باقی جمنازیم سے لیکر ہاسٹل اور کراٹے ہال تک سب کچھ خالی پڑا ہے اور جتنے اخراجات اور تنخواہیں پی ایس بی پشاور سنٹر کی انتظامیہ کو عوامی ٹیکسوں کا ادا کیا جارہا ہے وہ بھی اس صوبے کے عوام پر بوجھ ہی ہے کیونکہ "کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑا بارہ آنے والا"حساب چل رہا ہے.

جب کھیلوں کی سہولیات پرائیویٹائز ہوں تو پھر پی ایس بی میں بیٹھے افسران سے لیکرنچلے طبقے تک کے لوگوں میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، اگر سرکار کی تمام سہولیات کھلاڑیوں کیلئے نہیں ان سے وصولی مقصد ہے تو پھر ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ سے لیکر ویٹر، باورچی، سیکورٹی گارڈ، ڈائریکٹر، اسسٹنٹ، ٹیوب ویل آپریٹرز، کلاس فور ملازمین کی اتنی بھاری بھر کم تعداد کی ضرورت ہی کیا ہے.ویسے بھی اٹھارھویں ترمیم کے بعد کھیلوں کی وزارت بھی صوبوں کے حوالے کی گئی ہیں جس پر گذشتہ دنوں سابق صوبائی وزیر کھیل سید عاقل شاہ نے پریس کانفرنس بھی کی تھی.اگر پی ایس بی آج بھی انہی سہولیات پر قابض ہے تو پھر ان سب ملازمین کو فارغ کرکے گھر بھیجنا چاہئیے اور صرف ایک رکھ لینا چاہئیے جو بطور نگران کے کام کرے، اور تمام سہولیات اگر کوئی لینا چاہے تو دیں اور ان سے فیس وصول کرے، اور اگر کوئی نہیں تو پھر اخراجات تو نہیں ہونگے. یہاں پر تو ایسے ایسے لوگ بھرتی ہیں جو نہ تو ڈیوٹیاں کرتے ہیں اور نہ ہی حاضریاں لیکن انکی تنخواہیں مستقل آرہی ہیں.

ایک طرف یہی صورتحال ہے تو دوسری صرف پرائیویٹ جیم کے نام پر سرکاری عمارت میں الگ ہی ڈرامہ جاری ہے، سابق ڈی جی اور پشاور سے تعلق رکھنے والے آصف زمان کے احکامات پر ایسے قائم مقام ڈائریکٹر نے ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کو نکال کر جگہ خالی کرادی جو اس کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں، کیونکہ قائم مقام کے پاس معاہدے کرنے کا اختیار نہیں لیکن چونکہ پشاور کے کارخانو مارکیٹ سے کمبل، شہد اور بہت ساری چیزیں براہ راست ہیڈ کوارٹر پہنچ جاتی تھی اس لئے کسی بھی اخبار میں اشتہار دئیے بغیر ہی پرائیویٹ جیم شروع کردیا گیا، ابتدائی دنوں میں یہاں پر سنائی جانیوالی میوزک سے پتہ چلتا تھا کہ یہ کوئی شادی ہال ہے لیکن پھر بعدپی ایس بی کے اپنے ملازمین نے احتجاج کیا کہ ہمارے رہائشی کوارٹرز میں ہر روز "میں تیری پیچھے پیچھے آئی" یا پھر "سماجن ساجن " کے گانے سن کر ہمارے بھی کان پک گئے اسی بناء پر میوزیکل پروگرام تو ختم کردئیے گئے، بجلی کے غیر قانونی استعمال میں ابتدائی میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ان کی مدد کی، بعد ازاں پی ایس بی نے الگ میٹر چیکنگ کیلئے الگ سسٹم لگایا لیکن یہ بھی غلط ہے کیونکہ سرکار کے ریٹ الگ ہیں اور پرائیویٹ کمرشل اداروں کے ریٹ الگ ہیں لیکن پھر بھی یہ سلسلہ نومبر 2022 تک چلتا رہا جس میں بہت ساروں کو حصہ ملتا رہا اسی باعث خاموشی رہی.

پی ایس بی اسلام آباد کے نئے ڈائریکٹر جنرل نے اپنی آمد کے فوری بعد معاہدہ ختم کرنے سمیت اس کی اوپن نیلامی کے احکامات دئیے تھے لیکن احکاما ت دینے کے بعد وہ بھول گئے اور ابھی یہاں پر پرائیویٹ جیم چل رہا ہے. بغیر اشتہار کے، اوپن نیلامی کے کس طرح چل رہا ہے یہ وہ سوال ہیں جو کرنے کے ہیں لیکن رابطوں کے باوجود نہ تو پی ایس بی پشاور میں کوئی جواب دینے کو تیار ہیں اور نہ ہی ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے لاکھوں روپے لینے والوں کو اس سے کوئی غرض ہے، ہاں غرض دونوں کی بس ایک ہی ہے کہ کسی طرح پرائیویٹائزیشن کا عمل شروع ہو اور کھلاڑیوں سے بھاری بھر کم وصولیاں ہو.انہیں اپنی نوکریوں کی پرائیویٹ ہونے سے ڈر لگتا ہے.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497711 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More