کامیابی ہاتھ باندھے بیٹھ رہنے
سے نہیں ملتی ___ اِسی طرح فتح بھی پلیٹ میں سجا کر پیش نہیں کی جاتی ___
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کامیابی کو چھینا نہیں جاتا ___ یہ ایسا چمن ہے جسے
صرف محنت کے ساتھ سینچا جاتا ہے ___ یہ ایسی مالا ہے جسے محبت سے پرویا
جاتا ہے ___ یہ بھول بھلیوں کی ایک گتھی ہے ___ جو کبھی تسخیر پر سوار ہو
کر آتی ہے ___ کبھی ظاہری شکست کی دبیز تہوں میں چھپی ہوتی ہے ___
خاموشی،سکون،اطمینان اور راحت کامیابی کے نشان ہیں ___ اور شوروغوغا،بے
چینی اور گھبراہٹ ناکامی کی علامت ___ اکثر ناکام لوگ ہی واویلہ مچاتے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں ___ کبھی حالات کا شکوہ تو کبھی زمانے سے گلہ ___ کبھی
اپنوں سے لڑائی تو کبھی اغیار سے جھگڑا ___ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے سالارِ
اوّل،حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کتنی پیاری بات کہہ دی ___ ''زبان
کوشکوے سے پاک رکھو،خوشی کی زندگی عطا ہو گی'' ___ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ
خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے ___ کامیاب لوگ ذاتی سطح پر کسی وجہ
سے ناراض نہیں ہوتے ___ ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور خوش رکھتے ہیں ___ سکون و
اطمینان جیسے اُنکے خادم ہیں ___ سوچ کا انداز صرف مثبت رکھتے ہیں ___ اِسی
لیے وہ منزل کی طرف نہیں بلکہ منزل اُن کی طرف کھنچی چلی آتی ہے ___ انکی
تمام خوبیوں کا مجموعہ برداشت ہے ___ یہی ان کا سب سے بڑا راز ہے ___ رسولِ
کائنات ۖ ہر روزمکہ کی ایک گلی سے گزرتے ___ ایک مخالف بوڑھی عورت روزانہ
کوڑا کرکٹ پھینکتی ___ نبی کریم ۖ ماتھے پر شکن لائے بغیر کپڑے جھاڑ کر آگے
بڑھ جاتے ___ یہ واقعہ ہم سب نے پڑھایا سُنا ہے ___ مگر اِس میں ایک بہت
بڑا راز پوشیدہ ہے ___ جسے کامیابی کے مجسمے میں روح سے تشبیہ دیجئے ___
نبی کریم ۖ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ بوڑھی عورت کوڑا کرکٹ پھینکے گی ___
ہمیشہ اُس کے گھر والے راستے کو ہی اختیار کیا کرتے ___ اِسی طرح وقت کبھی
تبدیل نہیں فرمایا بلکہ روزانہ ایک مخصوص وقت پر وہاں تشریف لے جاتے ___ اس
کی وجہ یقینا اُس بوڑھی عورت کو تکلیف سے بچانا تھا ___ اگر مختلف راستوں
سے گزرتے تو اُس بوڑھی عورت کے لیے آپ ۖ کو ڈھونڈنا مشکل ہوتا ___ اگر
مختلف وقت میں گزرتے تو اُس بوڑھی عورت کے لیے مکہ کی سخت گرمی پریشانی کا
باعث بنتی ___ یہی وجہ ہے کہ جب وہ عورت بیمار پڑ گئی تو کریم آقا ۖ اُس کی
عیادت کے لیے تشریف لے گئے ___ بلکہ اُسکی صحتیابی تک برابر نہ صرف اُسکی
بلکہ اُسکے گھر کی دیکھ بھال بھی فرمائی ___ بس پھر اُس بوڑھی عورت نے کبھی
گستاخی نہیں کی بلکہ ہمیشہ کے لیے آپکی غلامی میں شامل ہو گئی ___ شیخ
المشائخ، بابا جی سیّد میر طیب علی شاہ بخاری سجادہ نشین حضرت کرماں والا
شریف نے ایک نشست میں ارشاد فرمایا: ___ جب نبی کریم ۖ نے چاند کو دو ٹکڑے
کیا تو قریش مسلمان نہیں ہوئے ___ مگر جب فتح مکہ کے بعد سخت ترین دشمنی کے
باوجودسب کو عام معافی اور پناہ عطا کر دی تو سب مسلمان ہو گئے ___ مثبت
سوچ اور برداشت کا بے حساب جذبہ ___ خانقاہی نظام کا یہی طرہ امتیاز ہے ___
اِسی لیے اولیاء براہِ راست نبی کریم ۖ کے نقش ِ قدم پر عمل کی راہ چلتے
ہیں ___ سو سو قتل کرنے والے ولی کی درگاہ پر آتے ہیں ___ گناہوں میں لتھڑے
ہوئے جب کسی ولی کے پاس حاضر ہوتے ہیں ___ ولی ماں کی طرح اپنی آغوش پھیلا
دیتا ہے ___ وہ اُسکے گناہوں،غلطیوں اور خطاؤں پر نظر نہیں رکھتا بلکہ
اُسکے اندر پوشیدہ انسان سے پیار کرتا ہے ___ برداشت کی یہ لازوال دولت ہی
اُسے شرف ِ انسانیت کی اُس معراج تک پہنچا دیتی ہے کہ جہاں ساری مخلوق اُس
کا احترام کرتی ہے ___ اللہ کے ایک ولی کو کسی غیر مسلم نے کھانے کی دعوت
پر بلایا ___ اصرار کر کے اپنے ساتھ گھر لایا ___ انتظام کرنے کا کہہ کر
خود گھر کے اندر چلا گیا اور بزرگ باہر کھڑے رہے ___ کچھ دیر بعد باہر آیا
اور کہنے لگاکہ تم یہاں کیا کر رہے ہوں اور میرے گھر کے سامنے کیوں کھڑے ہو؟
___ اللہ کے اُس ولی نے معذرت خواہ ہو کر واپسی کی راہ پکڑ لی ___ ابھی چار
قدم دور گئے تھے کہ وہ پیچھے سے دوڑتا ہوا آیا ___ کہنے لگا کہ آپ میری
دعوت قبول فرمائیں اور میرے ساتھ گھر چلیں ___ آپ فی الفور اُس کے ساتھ
واپس ہو گئے ___ اُس نے پہلے کی طرح باہر کھڑا کیا اور خود انتظام کرنے
اندر چلا گیا ___ کچھ دیر بعد باہر آیا اور اُس بزرگ کے ساتھ پھر سختی سے
پیش آیا ___ کہنے لگا کہ پہلے بھی میں نے آپ کو یہاں کھڑا ہونے سے منع کیا
ہے مگر آپ باز نہیں آتے ___ اللہ کے ولی نے فوراً معذرت کی اور واپس چل پڑے
___ ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ وہی شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا
___ جناب! میں نے یہ سب کچھ آپ کی قوت ِ برداشت کو جانچنے کے لیے کیا تھا
___ اورآپ واقعی ثابت قدم نکلے ہیں ___ اُسکی بات سن کر بزرگ مسکرائے اور
فرمایا ___ میاں! یہ کوئی بڑی بات نہیں ، یہ خوبی تو کتوں میں پائی جاتی ہے
کہ جب اُنہیں دھتکارا جائے، چلے جاتے ہیں ___ جب بلایا جائے تو واپس آ جاتے
ہیں ___ برداشت کا یہی جذبہ اِن اولیاء کی طرح کامیاب لوگوں کو اپنے مقصد
پر مضبوطی سے قائم رکھتا ہے ___ اِن کی توجہ منزل سے ذرہ بھر نہیں ہٹتی ___
جبکہ ناکام شخص ذرا تکلیف پر رُک کر واویلہ کرتا ہے ___ دوسروں کو موردِ
الزام ٹھہراتا ہے ___ جی بھر کر لڑتا ہے ___ اُلجھنے میں ذرا دیر نہیں
لگاتا ___ اِسی لیے اُس کی توجہ مقصد سے ہٹ جاتی ہے ___ اور وہ منزل کھو
بیٹھتا ہے ___ جبکہ کامیاب شخص نبی کریم ۖ کی اتباع میں ہر تکلیف پر
مسکراتا ہے ___ گندگی جھاڑتا ہے اور منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے ___
اِسی لیے منزل خود آگے بڑھ کر اُسکے قدم چومتی ہے ___ ہمیں تبلیغ کرنے سے
پہلے اِس سبق کو لازمی یاد رکھنا ہے ___ ہمیں معاشرے میں برداشت کو رواج
دینا ہے ___ کامیابی کا یہی دروازہ ہے ___
والسلام الیٰ یوم القیام |