رمضان، رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ، شروع ہو چکا۔ رمضان
کا مہینہ جس انداز میں ہمارے بچپن میں لاہور شہر کے اندر جس اہتمام اور جوش
و خروش سے منایا جاتا تھا، وہ سب کا انداز اگر چہ بہت بدل گیا ہے مگر
اندرون شہر کے لوگوں کے جذبات اور احساسات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ لیکن
میرے جیسے لوگ جواب شہر کے مضافات میں آ مکین ہوئے ہیں ،ان رونقوں کو پوری
طرح کھو چکے اور آج ایک روکھا پھیکا رمضان گزار رہے ہیں۔رمضان کا جذبہ تو
وہی ہے ، رب کی رحمتیں بھی وہی ہیں مگر رمضان میں لوگوں کی اجتماعی
سرگرمیاں جواندرون شہر ہوتی ہیں ، مضافات کے لوگ اس سے واقف ہی نہیں۔مجھے
یاد ہے شہر کی ہر مسجد میں ایک بڑا ڈھول ہوتا تھا جس کی شکل آدھے کٹے ہوئے
انڈے کی طرح کی ہوتی تھی۔ رمضان شروع ہونے سے ہفتہ پہلے اسے سٹور میں سے
نکالنا۔ عام طور پر وہ ایک سال میں خراب ہو جاتا تھا، چنانچہ اس پر نیا
چمڑا چڑھانا۔ ڈھول بجانے کے لئے نئی چھڑیاں لانا۔لمبی لمبی دستر خوان کی
نئی چادریں خریدنا اور اس طرح کے چھوٹے چھوٹے بہت سے کام محلے بھر کے
نوجوان خوشی سے کرتے اور بڑی بے تابی سے پہلی افطاری کا انتظار کرتے۔
رمضان کا اعلان ہوتا تو پہلی تراویح میں اہل محلہ کی بہت بھرپورشرکت
ہوتی۔لوگ ایک دوسرے کو رمضان کی مبارک دیتے اور یوں بڑے اچھے ماحول میں
رمضان کی ابتدا ہوتی۔تروایح کی نماز میں رش دیکھنے والا ہوتا۔ یہ رش وقت کے
ساتھ قدرے کم ہو جاتا لیکن پہلی رمضان کے جذبے اور ولولے دیکھنے سے تعلق
رکھتے۔ اگلے دن افطاری کے وقت مسجد میں خوب رونق ہوتی ۔ پچھلی صفوں پر دستر
خان بچھائے جاتے اور لوگوں کی لائی ہوئی چیزوں سے دستر خوان بھر دیا جاتا۔
دو تین لڑکے جنہیں مولوی صاحب اس دن ڈھول بجانے کی اجازت دیتے ، ہاتھ میں
ڈھول بجانے والی چھڑیاں پکڑے ڈھول بجانے کے لئے مولوی صاحب کے اشارے کے
منتظر ہوتے۔ مولوی صاحب آواز دیتے کہ وقت ہو گیا ہے تو ڈھول پیٹنا شروع ہو
جاتا۔نوجوانی میں ڈھول پیٹنا بھی ایک عجیب سرور دیتا تھا۔ڈھول کی تھاپ سنتے
ہی سب افطاری میں مصروف ہو جاتے۔ ان دنوں لوگ آج جتنے خوشحال نہیں تھے مگر
مسجد کا دستر خان بڑا بھرپور ہوتا تھا۔ لوگ حسب توفیق بہت کچھ لے کر آتے
تھے۔ بہت کچھ لانے کے باوجود کوئی نمائش اور نمود نظر نہیں آتی تھی۔لوگ
جلدی جلدی افطاری کرتے ۔ موذن افطاری یرنے کے بعد اذان دیتا اور بھاگم بھاگ
افطاری کا بقیہ سامان اور دستر خان سمیتنے کے بعد سب لوگ نماز پڑھتے۔اب
ڈھول کا دور ختم ہو چکا۔ کبھی سائرن بھی بولا کرتا تھا مگر اب ٹی وی کا دور
ہے۔ ٹی وی پر روزہ کھولنے کی دعا شروع ہوتی ہے تو روزہ کھل گیا کا شور
اٹھتا ہے اور لوگ روزہ کھول لیتے ہیں۔مسجد میں افطاری کی رسم بھی کافی کم
ہو گئی ہے ۔ لوگ گھر پر روزہ کھولنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
تراویح کے وقت نوجوان پہلے دو چار دن برے زور شور سے نماز میں حصہ لیتے مگر
وقت کے ساتھ کچھ زور شور کم ہو جاتا۔ نوجوان مسجد دیر سے آتے اور مسجد کے
راستے میں کہیں کھڑے گپ شپ لگا رہے ہوتے ۔ اچانک ایک نعرہ لگاتا،’’اوئے،
تراویح کی نماز شروع ہو گئی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی سب ڈور لگا کر مسجد پہنچتے ۔
نماز کا وہ حصہ جو لیٹ آنے کی وجہ سے چھوٹ گیا تھا اسے تیزی سے مکمل کرتے ،
تاکہ باقی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ سکیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک دوست جو لیٹ
آئے تھے ، نماز میں جماعت کے ساتھ ملنے کے لئے بڑی تیزی سے نماز پڑھ رہے
تھے تو محلے کے ایک بزرگ نے آواز دی او کہا،’’بیٹا مسجد میں نماز پڑھنے آئے
ہو کہ ورزش کرنے، نماز تو سکون سے پڑھنے والی چیز ہے، اﷲکو جب یاد کرتے ہیں
تو بڑے اطمینان اور خشوع اور خصوح کے ساتھ ، ورنہ ساری عبادت بے معنی ہے‘‘۔
سارے گروپ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، وہ دوست بھی شرمندہ ہوا اور پھر
نماز پڑھنے کا سب کا انداز بدل گیا۔بھلا وقت تھا بزرگوں کا بے حد احترام
تھا اور ان کے کہے کو پوری اہمیت دی جاتی تھی۔
رمضان سے کچھ دن پہلے نوجوانوں کے چند گروہ ٹولیاں تشکیل دیتے۔ وہ دن رات
بیٹھ کر کچھ نعتیں تیار کرتے تاکہ لوگوں کو جگانے کے لئے رات کو گھروں کے
آگے سے وہ نعتیں پڑھتے ہوئے گزریں اور لوگ ان کی آواز سن کر جاگ جائیں۔یہ
وہ لڑکے ہوتے تھے جو عید سے ایک یا دو روز قبل اپنی ٹولی لے کر لوگوں کے
گھروں میں جاتے اور اپنی خدمت کے صلے میں لوگوں سے عیدی وصول کرتے۔ہمارے
علاقے میں ایک ایسا گروہ بھی تھا جس کے ارکان رمضان کے آخری عشرے میں حرکت
میں آتے۔یہ بے روزہ داروں کا ایک ایسا گروہ تھا جس کے ارکان رمضان کے غم
میں ہلکان چھ سات دن ٹولی نکالتے اور بڑی لے میں گاتے:
ماہ رمضان نہ کر الوداعی
دل کو بھائے نہ تیری جدائی
تیری فرقت میں جلتے ہیں سینے
کیسے گزریں گے گیارہ مہینے
عید سے ایک یا دو دن پہلے جب وہ لوگوں سے عیدی وصول کرنے لوگوں کا دروازہ
کھٹکھٹاتے تو لوگ ہنستے ، انہیں دھوکے باز اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے مگر
عیدی دے دیتے۔ وہ بھی بغیر پرواہ کئے لوگوں کی باتیں سنتے مگر عیدی اکھٹی
کرنے کا مقصد حاصل کر لیتے۔ سحری کے وقت ایک فقیر ایک ساز شاید اسے طنبورہ
کہتے ہیں بجاتا ہوا گزرتا۔ ایک شخص گھی کا خالی کنستر بجاتا ، تھوڑے تھوڑے
وقفے سے ’’اٹھو، سحری کا وقت ہو گیا ہے ‘‘ کا نعرہ لگاتا گزرتا ۔اس مہینے
میں ایسے ایسے فقیر اور درویش رات کے اس حصے میں لوگوں کو جگاتے نظر آتے
جنہیں ہم نے کبھی دن کے وقت دیکھا بھی نہیں تھا۔سحری سے آدھ گھنٹہ پہلے تک
ایک پورا گھنٹہ اس قدر پر رونق ہوتا کہ اب اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔یہ
سبھی جگانے والے عید سے ایک دو روز پہلے ہر گھر کے دروازے پر پہنچ کر اپنی
عیدی وصول کرتے۔شہر میں اب بھی کچھ لوگ جگانے کا کام کرتے ہیں مگر اس قدر
رونق نہیں، کافی فرق پڑ گیا ہے مگر مضافات میں جہان اب اپنا بسیرا ہے ،کوئی
بھول کر بھی نہیں آتا۔کوئی فقیر، کوئی ڈبے والا، کوئی ساز بجانے والا، کوئی
ٹولی،اس علاقے میں کبھی نظر نہیں آئی۔ہمارے بچے اس کلچر سے واقف ہی نہیں۔
ان سے ذکر کریں تو وہ ایسی باتیں اس طرح سنتے ہیں جیسے کوئی الف لیلیٰ کی
کہانی۔وہ عام دنوں میں میں بھی کبھی اندروں شہر چلے جائیں تو وہاں کی چہل
پہل دیکھ کر نیم دیوانوں کی طرح کھوئے کھوئے ان رونقوں کا مزہ لیتے ہیں۔ ان
کے نزدیک رمضان بس سارا دن چپ چاپ رہنے کا نام ہے ۔ پردیس میں جس طرح لوگ
اپنے شہر کو یاد کرتے ہیں، میں بھی اسی طرح اپنا بچپن یاد کرتا ہوں، وہ
رونقیں، وہ لوگوں کا اپنا پن، وہ دوستیاں، وہ شرارتیں سب کچھ کھو گیا ہے
اسلئے میں کہتا ہوں کہ مجھے اس علاقے کا رمضان بڑا روکھا پھیکا لگتا ہے۔
تنویر صادق
|