عید مبارک

بہت سے لوگوں کی عید آپ کی مد کے ذریعے ہونے ہے لہذا دیر مت کیجیے، تاکہ وہ بھی عید کی اس خوشی میں آپ کے ساتھ شریک ہو سکیں

گلی کے دونوں طرف سناٹا چھایا ہوا تھا ، آسمان پر سورج سوا نیزے پر موجود تھا۔ گرم لو کے خاموش تھپیڑے فضا میں ہر سو تھر تھرا رہے تھے، فقط ایک گھر کا دروازہ گلی کی جانب کھلا ہوا تھا ۔ تیسری جماعت کی بچی جو لگ بھگ سات آٹھ برس کی لگ رہی تھی، دروازہ کھلا دیکھ کر خوش ہوئی اور بڑبڑائی "شاید ابا نے وقت دیکھا ہو گا اور انہیں معلوم ہے کہ یہ میرے آنے کا وقت ہے اس لیے دروازہ کھول دیا۔ "تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک محمل سی جان گھر کی سمت بڑھی۔

نور، رملہ اور ایمن کے ساتھ لان میں فٹبال کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔ اچانک گاڑی کے ہارن کی آواز آئی، ساجد چچا نے دروازہ کھولا اور اس کے بعد ایک نظر نور پر ڈالی اور نور ان کے پاس چلی گئی۔ "میری سوہنی کڑی۔۔۔۔ جا کے اماں سے سامان کی لسٹ لے آؤ"۔ چچا گاؤں میں پلے بڑے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ ایسے بات کیا کرتے۔ گاڑی سے ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص اترا، اس نے ہاتھ میں اٹھایا ہوا بیگ چچا کو دیا۔ رملہ اور ایمن کا ہاتھ پکڑ کر وہ گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ یہ شخص رملہ اور ایمن کے والد ملک تیمور صاحب تھے۔ جبکہ چچا ان کے گھر ملازم تھے اور ان کے دو بچے ایک نور اور دوسرا جمشید تھے۔

افطاری کا وقت ہوا چاہتا تھا، چچا اپنے کوارٹر میں بیٹھے سائرن بجنے کا انتظار کر رہے تھے۔ نور بھی ان
کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھی،"ابا۔۔۔ عید آنے والی ہے لیکن۔۔۔ ہم نے تو کپڑے ہی نہیں لیے۔کیا ہم پرانے کپڑے پہنیں گے؟"۔نور نے یکدم ذہن میں ابھرتے سوالوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔

"اینج نئی سوچئ دا میری پتری۔۔۔ ہو جاسی۔۔۔۔۔" ساجد چچا نے اسے حوصلہ دیا لیکن وہ خود اس سوچ میں مبتلا ہوگئے۔

نور اپنی ماں کلثوم کے ساتھ باورچی خانے میں کام کروا رہی تھی۔ صاحب جی کی آواز سے کلثوم کام کرتے ہوئے رکی اور شیلف کے پاس پڑی کرسیوں کی جانب آئی، اب بیگم صاحبہ کچھ بول رہی تھیں۔ نور برتن دھو رہی تھی اور سنک میں پانی گرنے کی آواز بیگم صاحبہ کی آواز سنائی دینے میں خلل پیدا کر رہی تھی۔ کلثوم نے نور کو آواز دے کر نلکا بند کرنے کو کہا، نور نے ایک لمحہ میں ہی نلکا بند کر دیا ۔ "تیمور آپ کیوں بات نہیں سن رہے۔۔ میں کہہ رہی ہوں کہ ابھی زکوٰۃ مت دیں۔۔" بیگم صاحبہ نے اپنی رائے کے متعلق تیمور صاحب کو آگاہ کیا۔ " نرمل! پچھلے سال بھی ہم نے اسی ماہ زکوٰۃ دی تھی اب کی بار بھی دے دیتے ہیں۔ اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔ " ۔ صاحب کا لہجہ سخت تھا۔ "پچھلی بار آپ نے چچا کو زکوٰۃ علیحدہ دی تھی، وہ پیسے انھوں نے گاؤں بھیج دیے اور عید کے لیے الگ رقم دوبارہ دینا پڑی تھی۔۔۔اگر اب بھی ایسا کیا تو چچا یہ پیسے خرچ کر دیں گے اور عید پر پھر ہمیں ہی دینے پڑیں گے۔۔۔ "بیگم صاحبہ کی آواز بہت اونچی تھی جبکہ دوسری جانب کلثوم یہ سن کر قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ یہ الفاظ نہیں تھے، یہ ایک تیز دھار آلہ تھا جو کلثوم کے دل کو چیرنے کے لیے مؤثر ثابت ہوا۔ چچا اور صاحب تراویح کے لیے مسجد گئے ہوئے تھے، کلثوم کا دل بے چین تھا اس نے چائے بنائی اور چائے کا پیالہ لے کر وہ سر سبز لان میں آ گئی۔ گھاس پر بیٹھتے ہوئے اس نے سوچا کہ بیگم صاحبہ نے ناجانے ایسی باتیں کیوں کیں؟ حالات جیسے بھی ہو جائیں میں نے اور ساجد نے ان سے کبھی اس متعلق ذکر ہی نہیں کیا اور امداد تو پھر دور کی بات ہے۔ اس کی انگلیوں کے پور کئی گھڑیوں سے چائے کے کپ کے ارد گرد محور سا باندھ رہے تھے ، چاۓ جامد پڑ رہی تھی یا کلثوم کے احساسات اندازہ لگانا مشکل تھا ، بظاہر آس پاس ان کومل پھولوں کو دیکھتی وہ چاۓ کے کپ کو تھامے اپنی سوچوں میں الجھی بیٹھی تھی ، اس تسلسل کو نور کی آواز نے توڑا ، یوں اچانک جیسے سب سوچوں کو ٹھوکر لگی تھی۔" اماں۔۔۔ کیا میں رملہ کے ساتھ بازار جاؤں؟ وہ عید کا جوڑا لینے جا رہی ہے۔ آپ ابا سے پیسے لے دیں تاکہ میں بھی لے لوں"۔ نور نے اپنی حسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔"نور۔۔۔ میری شہزادی۔۔۔ تمہارے ابا کے پاس جونہی پیسے ہوں گے، میں سب سے پہلے تمہیں جوڑا لا کر دوں گی اور مجھے پتا ہے میری بیٹی میری بات مان لے گی۔"۔۔ کلثوم کی آواز میں بےچارگی تھی۔ نور نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا اور ایک مرتبہ ان ہاتھوں کی طرف دیکھا جو اس کا سر سہلانے میں مصروف تھے۔" ٹھیک ہے۔۔۔۔ "نور کے اس اقرار کے دوران اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔" اب میں جمشید کے ساتھ کھیلنے جا رہی ہوں۔" نور نے بات ختم کرتے ہوئے کہا اور بھاگ گئی۔ غریب کے بچے بھی حالات سے واقف ہوتے ہیں اسی لیے امیروں کی طرح ضد نہیں کرتے۔ کلثوم دوبارہ تنہا ہو گئی تھی اور اس کو خیالوں اور سوچوں نے دوبارہ اپنی آغوش میں لے لیا ۔۔

"کل آخری روزہ ہے کیونکہ آج چاند نظر نہیں آیا" بیگم صاحبہ نے کلثوم کو کام کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے بتایا اور خود باورچی خانے سے باہر چلی گئیں۔ کلثوم اپنے کام میں مصروف تھی یکدم اسے نور نے پکارا ۔ اماں آپ نے کہا تھا کہ آپ ابا سے بات کر کے میرا عید کا جوڑا لے آئیں گی۔۔ "نور نے یادہانی کروائی "نور۔۔۔ میں بات کرتی ہوں آج تمہارے ابا سے۔۔۔ "کلثوم نے وائپر سائڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

"وہ رہا عید کا چاند۔۔۔۔۔" رملہ اور ایمن نے چاند کی سمت اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ ان دونوں کے مقابل نور بھی کھڑی تھی، ویسے نور ان دونوں کے ساتھ ہر کام میں شرکت اختیار کرتی لیکن آج وہ خاموش تھی، اداس تھی ، مضطرب تھی یا۔۔۔ ان سب سے بالا تر ۔

"کلثوم کیا ہوا ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں تم کچھ دنوں سے بہت خاموش رہنے لگی ہو ۔" ساجد چچا نے پوچھا
نہیں۔۔۔۔ ایک بات ہے جس نے مجھے اس حالت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ " کلثوم بتانا نہیں چاہتی تھی لیکن اپنے اندر کا غم کسی کے ساتھ بانٹنا ۔۔۔ وہ ایسا ضرور چاہتی تھی۔ دوسری جانب خاموشی تھی ۔" ساجد پتا ہے کیوں اس بار ہماری مدد نہیں کی گئی کیونکہ ہم وہ پیسے جلدی ختم کر دیتے ہیں اور عید کے لیے دوبارہ پیسے لینے کا یہ ایک بہانہ ہے "۔۔۔ کلثوم نے پوری بات اپنے شوہر کو بتائی ، اس دوران کلثوم کی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک دریا بہہ رہا تھا جو ناجانے کب سے قابو میں تھا؟ اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔" مجھے عید کے لیے نیا جوڑا نہیں چاہیے۔۔ میں وہی پرانا پہنوں گی۔۔۔ ویسے بھی اماں آپ نے کہا تھا نا کہ میں اس جوڑے میں شہزادی لگتی ہوں۔۔"نور کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی اور اپنی ہتھیلیوں سے ماں کا چہرہ صاف کیا۔ "نور۔۔ یوں چپکے سے بات سننا بری بات ہوتی ہے۔" کلثوم نے نور کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ "آئندہ نہیں کروں گی۔" جواب مختصر تھا ۔ "جاؤ میری گڑیا۔۔۔۔ وہ سوٹ لاؤ تا کہ میں استری کر دوں " ۔نور بخوشی وہاں سے چلی گئی۔ چچا کی آنکھوں میں آنسو تھے شاید بےبسی کے۔۔۔۔ بعض اوقات حالات انسان کو عمر سے پہلے ہی بڑا بنا دیتے ہیں۔ باپ جیسا بھی ہو ، وہ ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ میری اولاد خوش رہے، چاہے اس کے لیے باپ کو کچھ بھی کرنا پڑے لیکن تقدیر کے آگے سب بے بس ہو جاتے ہیں۔" میں اپنی اولاد کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، نور نے صرف ایک جوڑا ہی تو مانگا تھا وہ بھی نہیں لا کے دے سکا۔۔۔"نور کے ابا افسردگی سے بول رہے تھے۔ "چچا ایسا مت بولیے، ہماری غلطی ہے کہ ہم آپ کے حالات سے بے خبر اپنی دھن میں مگن تھے، ہمیں معاف کر دیجیے۔" تیمور صاحب نے ندامت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو جوڑتے ہوئے کہا۔

صاحب۔۔۔ آپ یہاں اور ہاتھ کیوں جوڑ رہے ہیں، مجھے شرمندہ مت کریں۔۔ "چچا جھجک کر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔"ہم امیر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سب ہماری طرح امیر ہی ہیں۔۔سب کے پاس ضرورت کی ہر ایک شے ہے۔مجھے معاف کر دیں آپ دونوں۔"نرمل نے چند سوٹ اور ایک لفافہ کلثوم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔" نہیں۔۔ بیگم صاحبہ یوں مت کہیے۔ "اتنے میں نور مسکراتے ہوئے اپنا پرانا جوڑا ہاتھ میں اٹھائے اپنی اماں کی طرف بڑھی ۔ جوڑا ماں کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس نے کمرے میں موجود لوگوں کی طرف دی اور" عید مبارک آپ سب کو! " کہتے ہوئے کمرے سے بھاگ گئی۔

ساجد چچا کی طرح بہت سے گھرانے آپ کی امداد کے منتظر ہیں انھیں عید تک انتظار مت کروائیے، ابھی امداد کیجیے تاکہ وہ بھی اس "عید" کی خوشی میں آپ کے ساتھ شریک ہو سکیں اور انھیں بھی عید مبارک کہنے کا موقع مل سکے۔

Zainab Nisar Bhatti
About the Author: Zainab Nisar Bhatti Read More Articles by Zainab Nisar Bhatti: 25 Articles with 13465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.