دولت کی حوس احساسات، اور رشتوں کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے:

دولت بھی لے لو، شہرت بھی لے
لوٹا دو مجھے وہ بچپن کے دن
وہ کشتیاں، وہ کھلونے، وہ وفاداری، وہ محبت لوٹا دو مجھے
ایک وقت تھا جب لوگ کہتے تھے کہ انسان کے پاس پیسہ ہو تو کیا کچھ نہیں خریدا جا سکتا۔
لیکن کیا اب بھی دولت سب کچھ خرید سکتی ہے؟
جی نہیں!!!

دولت سے خریدی ہوئی ہر شئے ایک وقت تک ہوتی ہے اور اس دولت کے کم ہوتے ہی یا زیادہ ہوتے ہی وہ چیز آپ کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے.

دولت کے بڑھنے سے اس انسان کو زیادہ لالچ آ جاتی ہے جس سے شکر کرنے والی عادت کو دہی لینے بھیج دیا جاتا ہے اور اس سے بہتر کی حوس میں وہ اپنی پہلی اور قیمتی چیز کو کورے کے داموں میں بھیج ڈالتا ہے جس کا اسے احساس تک نہیں ہوتا، کیونکہ دولت کا نشہ انسان کو نا سوچنے کے قابل چھوڑتا یے اور نا کچھ سمجھنے کے۔

دولت کا نشہ تو دنیا کے تمام بدترین نشوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ باقی نشوں میں انسان اپنے پیار کرنے والوں، اپنے خونی رشتوں کو الگ ہونے نہیں دیتا لیکن دولت وہ واحد نشا ہے، اگر اسکی کسی کو لت لگ گئی تو وہ اپنی سالوں کی محبت، اپنے خونی رشتوں کو بھی ایک سیکنڈ میں ختم کرکے رکھ دیتا ہے جس کا اسے احساس تک نہیں ہوتا جس کی مثال حال ہی میں حسن کی زندگی سے لیا جا سکتا یے، اور ایسے ہزاروں واقعات ہر روز ہوتے ہیں۔

ایسے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ آجکل دولت ایک ایسی خطرناک بیماری بن چکی ہے جو ہر روز کتنے ہی لوگوں کی خوشیوں کو نیست ونابود کردیتی ہے، کتنے ہی خاندانوں کو الگ کر رہی ہے، ایک ایسی بیماری کو کینسر جیسے موضی مرض سے بھی زیادہ خطرناک اور اسی بیماری کے لیے ہمارے نبی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہوتا ہے اور میری امت کا فتنا دولت ہے۔
دولت ہی نے معاشرے کی ویلیو، رشتوں کی اہمیت کو کئی کا نہیں چھوڑا اور سب سے بڑی بات کہ آجکل لوگ اخلاق کے نسبت دولت کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ ایک ایسی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے جہاں انسانوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، جہاں انسانیت کا قتل سرعام ہو رہا یے، جہاں رشتوں کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی۔

اللہ پاک سے دعا یے کہ ہمیں اس فتنے سے دور رکھے اور جو بھی عطا کیا یے اس میں ہمیشہ خوش رہنے کی عادت دے تاکہ ہم ایک اچھے انسان، ایک اچھے مسلمان بن سکے اور جب ہمارا سامنا اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو تو ہم شرمندہ نا ہوں۔
 

Muhammad Hassan Soomro
About the Author: Muhammad Hassan Soomro Read More Articles by Muhammad Hassan Soomro : 10 Articles with 4400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.