اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن
رپورٹ 2023 کے اندازوں کے مطابق بھارت 2023 کے وسط تک چین کو پیچھے چھوڑ کر
دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی
ملک کا ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ آبادی کے حجم پر منحصر ہوتا ہے لیکن آج کے جدید
دور میں آبادی کا معیار زیادہ اہم ہو چکا ہے اور کئی ایسے پیمانے ہیں جن کو
مدنظر رکھتے ہوئے معیاری آبادی کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ان میں ہنرمند
افرادی وسائل اور تعلیم یافتہ سماج اور لیبر فورس کلیدی عوامل ہیں۔اس
اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت چین کے پاس محنت کش طبقے کی تعداد تقریباً
نوے کروڑ ہے اور اس میں ہر سال ڈیڑھ کروڑ کا اضافہ ہورہا ہے۔چین کے لیے یہ
امر بھی باعث اطمینان ہے کہ ملک کی مجموعی آبادی میں محنت کشوں کی مجموعی
تعداد کا تناسب نسبتاً بلند معیار پر رہا ہے،اس لحاظ سے دیکھا جائے تو
ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ بدستور موجود ہے اور اعلیٰ معیارکی آبادی ملک کی اعلیٰ
معیاری ترقی کو آگے بڑھاتی رہے گی۔
دوسری جانب گزشتہ 20 سالوں میں چینی عوام کی تعلیمی سطح میں نمایاں بہتری
آئی ہے۔ملک کی ساتویں قومی مردم شماری کے مطابق، 15 سال اور اس سے زیادہ
عمر کے افراد کے لئے اسکول کی تعلیم کا اوسط دورانیہ سال 2000 میں 7.85 سال
سے بڑھ کر 2020 میں 9.91 سال ہو چکا۔2020میں کالج کی سطح یا اس سے اوپر کی
تعلیم حاصل کرنے والے 218 ملین افراد تھے۔ 2000 سے 2020 تک ہر ایک لاکھ
افراد کی بنیاد پر یہ تعداد 3611 افراد سے بڑھ کر 15467 ہو چکی ہے۔جیسا کہ
چینی آبادی کی تعلیم کی سطح میں بہتری آئی ہے ، اسی طرح لیبر کے معیار میں
بھی بہتری آئی ہے۔اسی طرح کام کرنے والے افراد میں شرح تعلیم کی بات کی
جائے تو سولہ سے انسٹھ سال تک کی آبادی میں اسکول کی تعلیم کا اوسط دورانیہ
سال 2010 میں 9.67 سال سے بڑھ کر 2020 میں 10.75 سال ہو چکا ہے۔ ساتویں
قومی مردم شماری کے مطابق، 2020 میں چین میں ورکنگ ایج آبادی 880 ملین تھی،
جو ملک کی کل رجسٹرڈ آبادی 1.41 بلین کا 62.4 فیصد ہے اور معاشی ترقی کے
لئے ایک اہم بنیاد فراہم کرتی ہے۔تعلیمی حصول میں مسلسل بہتری اعلیٰ تعلیم
کے فروغ، نوجوان اور درمیانی عمر کے بالغوں میں ناخواندگی کے خاتمے اور
آبادی کے معیار کو بڑھانے میں چین کی کامیابیوں کو ظاہر کرتی ہے۔
اسی عرصے کے دوران تعلیم تک رسائی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔چین کی وزارت
تعلیم نے گزشتہ مئی میں اعلان کیا تھا کہ ملک نے دنیا کا سب سے وسیع اعلیٰ
تعلیمی نظام قائم کیا ہے جس میں 240 ملین افراد اعلی تعلیم حاصل کر چکے
ہیں۔ملک نے پیشہ ورانہ تکنیکی انسانی وسائل کی ترقی اور اعلیٰ ہنر مند
صلاحیتوں کی تربیت میں مسلسل سرمایہ کاری کی ہے ، کاروباری اداروں کو اعلی
معیار کے ٹیلنٹ کی وافر تعداد فراہم کی ہے۔2022 ء میں چین کا تعلیم پر مالی
خرچ مسلسل 10 سال تک اس کے جی ڈی پی کے 4 فیصد سے اوپر رہا جس نے ملک کی
اعلیٰ معیار کی لیبر فورس کی بنیاد رکھ دی ہے۔14 ویں پانچ سالہ منصوبے
(2021-2025) کے دوران بھی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے ایک واضح اور اہم
ہدف متعین کیا گیا ہے کہ تمام چینی لوگ بہتر تعلیم کے مواقع سے لطف اندوز
ہوں اور ورکنگ ایج آبادی میں اسکول کی تعلیم کا اوسط دورانیہ بڑھ کر 11.3
سال ہو جائے.یوں کہا جا سکتا ہے کہ چین کا ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کہیں غائب
نہیں ہوا ہے بلکہ معیاری ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ تشکیل پا رہا ہے ، جو چین کی ترقی
کی مضبوط محرک قوت ہے۔
|