میرے محترم اور معز پڑھنے والوں کو میرا آداب
احادیث کا ہماری زندگی پر اثر کے عنوان سے آج ہم تحریر کا تیسرا حصہ یعنی
حصہ سوئم لے کر حاضر ہیں آج کی ہماری حدیث معروف اور جانی مانی کتاب " مسند
احمد " سے لی گئی ہے جس میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان
عالیشان ہے کہ ترجمہ " جو نیکی کرکے خوش ہوا اور برائی کرکے پریشان ہوا وہ
مومن ہے " اب ہم اس کی تفصیل اور ہماری زندگی پر اس کا اثر کیا ہے اس کی
طرف دیکھتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مسند احمد کی اس حدیث کے راوی حضرت سیدنا
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ہیں اس حدیث میں ان لوگوں کے بارے میں ذکر کیا
گیا ہے یا اشارہ دیا گیا ہے جن کا اپنے رب الکائنات سے تعلق اتنا گہرا ہے
اور ہونا بھی چاہیئے کہ اگر ان سے کوئی کام نیکی کا ہوجائے تو انہیں دلی
سکون ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے رب العزت کی اطاعت کی ہے اور اس کے حبیب
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کی ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ
انہیں اب اس کا اجر و ثواب روز محشر مرنے کے بعد ضرور ملے گا اور اس بات کی
انہیں بہت خوشی ہوتی ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں لیکن اگر جب ایسے لوگوں سے کوئی غلطی یا
گناہ سرزرد ہوجائے تو انہیں بہت ندامت اور شرمندگی ہوتی ہے کہ ان سے اللہ
تعالی کی نافرمانی ہوگئی اگر اللہ رب العزت نے ان کو اس گناہ کے سبب نہ
بخشا تو کیا ہوگا برائی یا غلطی ہوجانے پر شرمندگی اور نادم ہونے کا عمل ہی
اللہ رب الکائنات کے نزدیک اپنے بندے کا پسندیدہ عمل ہے لیکن اگر آپ اسلام
کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے انبیاء کرام ، صحابہ کرام ، اولیاء
کرام اور بزرگان دین نے بغیر کوئی غلطی سرزرد ہوئے بھی اللہ تبارک وتعالی
کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں قران مجید کی آیات اور احادیث مبرکہ سے یہ
بات ثابت ہوتی ہے کہ گناہ کا ارتکاب مسلمان مومن بھی کرتا ہے اور کافر بھی
لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ مومن کبھی بھی گناہ کرتا نہیں ہے بلکہ ہوجاتا
ہے یعنی نفس کے ہاتھوں مجبور ہوکر یا شیطان لعین کے بہکاوے میں آکر وہ گناہ
کر بیٹھتا ہے وہ اس گناہ کا عادی نہیں ہوتا بلکہ غلطی سے ہوجاتا ہے اور پھر
تمام عمر اس گناہ کے سبب اللہ تعالی کی بارگاہ میں نادم اور پشیمان رہتا ہے
اور بار بار اس گناہ کو یاد کرکے اللہ تعالی کی بارگاہ ایزدی میں معافی کی
درخواست کرتا رہتا ہے اسے اپنی غلطی کے احساس ہونے پر وہ دوبارہ اس گناہ کی
طرف جانے کی کوشش بھی نہیں کرتا بلکہ پناہ مانگتا ہے اس گناہ سے اپنے رب
العالمین کی بارگاہ میں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس کے برعکس ایک کافر گناہ کا ارتکاب کرتا
ہے اور بار بار کرتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے اپنے کیئے ہوئے گناہ پر
نادم بھی نہیں ہوتا وہ گناہ کو اپنی عادت بنا لیتا ہے اسے کوئی خفت بھی
محسوس نہیں ہوتی اور گناہوں کے دلدل میں غرق ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے رب
الکائنات سے معافی کی درخواست نہیں کرتا اور پھر اس کا اخری ٹھکانہ جہنم
ہوتا ہے
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب دیکھیئے کہ ہم کچھ انبیاء کرام علیہم
السلام سے ہونے والی لغزش اور ان کا بارگاہ ایزدی میں معافی مانگنے کا ذکر
کرلیتے ہیں سب سے پہلے ہم ابو آدم یعنی حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کرتے
ہیں کہ شیطان مردود کے بہکاوے میں آکر جنت میں آپ علیہ السلام سے جو لغزش
ہوئی اور آپ علیہ السلام کو جنت سے نکل جانے کا حکم ہوا اپنی غلطی پر نادم
ہوکر لگ بھگ 300 سال آپ علیہ السلام اللہ رب العزت کی بار گاہ میں دعا و
استغفار کرتے رہے اور زارو قطار روتے رہے آپ علیہ السلام کے اس واقعہ کا
ذکر قران مجید کی سورہ البقرہ میں آیا ہے اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کو
جب طوفان کے آنے سے پہلے اللہ تبارک وتعالی کے حکم سے کشتی پر سوار ہونا
پڑا تو آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کنعان سے کہا کہ کشتی میں آجائو لیکن
وہ نافرمانی پر تھا اور اس نے انکار کیا تو آپ علیہ السلام نے دعا کی کہ
اللہ یہ میرا بیٹا میرا اہل ہے تو اللہ رب العزت کو یہ بات ناگوار گزری اور
فرمایا کہ اے نوح یہ تمہارا اہل نہیں ہے اگر یہ ہوتا تو تمہارا نافرمان نہ
ہوتا مجھ سے ایسی دعا نہ کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو غلط اور ناجائز سفارش
کرنا جاہلوں کا کام ہے گویا آپ علیہ السلام نادم ہوکر خاموش ہوگئے اور عرض
کیا کہ یا اللہ مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف فرمامجھے ایسا سوال نہیں کرنا
چاہیئے جس کا مجھے علم نہ ہومیں پناہ مانگتا ہوں مجھے معاف فرما اگر تو نے
مجھے معاف نہ کیا تو میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہوجائوں گا (سورہ ہود )
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک دفعہ حضرت سلمان علیہ السلام کے پاس
دریائی نسل کے عمدہ گھوڑے لائے گئے آپ ان کی دیکھ بھال میں اتنے مصروف
ہوگئے کہ نماز عصر یاد نہ رہی جب سورج غروب ہوا تو یاد آیا لیکن اب کیا آپ
علیہ السلام نے وہ گھوڑے جن کی دیکھ بھال کی وجہ نماز عصر فوت ہوگئی اپنے
ہاتھوں سے ذبح کردیا اور بارگاہ خداوندی میں معافی مانگی کہ یااللہ مجھے
معاف فرمادیجیئے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کیجیئے جو میرے بعد کسی کو نصیب
نہ ہو (سورہ ص )۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت یونس علیہ السلام جب اپنی قوم سے
مایوس ہوجاتے ہیں تو بغیر اللہ رب العزت کی اجازت کے شہر چھوڑ کر اپنی قوم
کو عذاب کا ڈر سنا کر چلے جاتے ہیں جب ان کی قوم کو عذاب کا خوف ہوا تو سب
نے بارگاہ خداوندی میں توبہ کرنا شروع کردیا اور اللہ رب العزت نے ان کی
دعا قبول کرلی اور عذاب الہی ٹل جاتا ہے جبکہ حضرت یونس علیہ السلام اپنی
غلطی کے سبب لقمئہ حوت بن جاتے ہیں یعنی مچھلی کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں اور
پھر وہیں انہیں احساس ہوتا ہے اپنی غلطی کا تو مچھلی کے پیٹ میں ہی دعا
شروع کر دیتے ہیں سورہ انبیاء میں موجود " آیت کریمہ" جس کا ترجمہ ہے کہ
"اے اللہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو پاک ہے بیشک میں ہی ظالموں
میں سے ہوں " مسلسل چالیس روز آپ علیہ السلام یہ دعا مانگتے رہے تب انہیں
معافی ملی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہم آج جس حدیث کا ذکر کرہے ہیں اس میں
اللہ رب العزت نے ایسے ہی لوگوں کو مومن کہا ہے کہ وہ نیکی پر خوش ہوتے ہیں
اور لغزش پر اپنے رب سے نادم ہوکر معافی مانگتے ہیں توبہ و استغفار کرتے
ہیں اور اللہ رب العزت اپنے بندے کے توبہ و استغفار کا عمل سب سے زیادہ
پسند ہے صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق سرکار علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ " اے لوگوں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کیا کرو میں ایک
دن میں 100 مرتبہ دعا اور توبہ کرتا ہوں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کئی انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہمیں
ملتا ہے جن سے لغزش ہوئی اور انہوں نے نادم ہوکر اپنے رب الکائنات کے حضور
معافی مانگی تو پھراللہ تعالی کو بھی ان کا نادم ہونا پسند آیا نہ صرف ان
کی توبہ و استغفار قبول ہوئی بلکہ رب العالمین کی طرف سے انہیں اعلی مقام
بھی عطا کیا گیا مسند احمد کی حدیث نمبر94 جس کا ہم ذکر کررہے ہیں اس میں
مومن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ہر اہل ایمان مسلمان اپنے آپ کو مومن
کہتا ہے لیکن یہاں مومن کا لفظ ان لوگوں کے لیئے استعمال ہوا ہے جو نیکی
کرنے پر خوش ہوتے ہیں اور برائی پر پشیمان ہوتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب بھی موقع ملے اللہ تعالی کی رضا کے
لیئے نیک کام کرنے کی کوشش کریں اور اس حدیث کے مطابق نیکی کا عمل کرکے خوش
ہوجائیں اس امید پر کہ اس نیکی کے سبب رب العزت کی طرف سے اجروثواب کے
حقدار ہوگئے اہل ایمان مومن کی طرح اور کوشش کریں کہ گناہوں سے بچیں لیکن
اگر کوئی گناہ سرزرد ہو بھی جائے تو اللہ رب العالمین سے اسی وقت توبہ
کرلیں نادم ہوکر شرمندہ ہوکر کہ یہ بھی اہل ایمان مومن کی نشانی ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس حدیث کو پڑھ کر سن کر اور اچھی طرح
سمجھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فی زمانہ اس دور میں اگر کوئی انسان اس حدیث
پر عمل کرتا ہوا اپنی زندگی کو گزارنا شروع کردے تو وہ بھی اللہ تعالی کے
خاص اور محبوب بندوں میں شامل ہوجائے گا اور یہ ہی اثرات ہیں اس حدیث کے
ہماری زندگی پر جس سے ہر خوش نصیب انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مجھے امید ہے کہ آج کی حدیث کے بارے میں
پڑھکر آپ لوگوں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہوگا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان
احادیث کو پرھکر ہم سمجھنے کی کوشش کریں اور سمجھکر اس پر عمل کرنے کی کوشش
کریں اور اپنی عارضی دنیاوی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی آخرت کی زندگی
میں اپنے رب تعالی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرخرو
ہوجائیں آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اللہ نے
چاہا تو پھر ایک حدیث کے ساتھ چوتھے حصے میں ملاقات ہوگی انشاءاللہ ۔
|