استاد جسے روحانی باپ کہا جاتا ہے۔دنیا میں جتنے بھی کام
ہے جتنے بھی شعبے ہیں،ہر ایک کے پیچھے ایک استاد کا محنت ہے۔ایک استاد کی
کوشش ہے۔استاد صرف سکول کے استاد کو ہم نہیں کہہ سکتے،استاد ایک کلیدی
کردار ادا کر رہا ہے اس معاشرے کی اباد کاری میں۔استاد گاڑی کا بھی ہوتا
ہے،استاد ایک جہاز کا بھی ہوتا ہے۔استاد ایک گھر بنانے کا بھی ہوتا ہے۔یعنی
زندگی کی ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں ہوں ان سب کا ایک استاد ہوتا ہے۔میں
یہاں پر سکول کی استاد کی بات کروں گا،ان کی فرائض کے بارے میں بات کروں
گا۔ہمارے معاشرے میں کچھ سکولز سرکاری ہوتے ہیں کچھ پرائیویٹ ہوتے ہیں۔لیکن
زیادہ تر پرائیویٹ سکول کی تعداد ہیں۔اور سنتے ہم یہی ہے اور دیکھتے بھی ہے
کہ پرائیویٹ سکول کے استاد سرکاری سکول کے استاد کے مقابلے میں بچوں کو
زیادہ پڑھاتے ہیں،اور یہ بات کچھ حد تک بلکل درست اور صحیح ہے۔میں سمجھتا
ہوں استاد چاہے وہ سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ہوں زمہ داری ایک ہی ہے بچوں کو
پڑھانا۔بچوں کو صحیح طریقے سے پڑھانا ہر استاد کا فرض ہے۔ہمارے ہاں ہم سب
کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سرکاری سکول کے بجائے پرائیویٹ
سکولوں میں داخل کرتے ہیں۔اور اس کی وجہ یہی بیان کرتے ہیں کہ پرائیویٹ میں
پڑھائی ٹھیک طریقے سے ہوتی ہے۔ہم سب چاہتے تو سرکاری سکول کی نوکری ہے لیکن
اپنے بچوں کو پرائیویٹ میں داخل کرتے ہیں۔تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ
سرکاری سکول کا استاد پرائیویٹ سکول کے استاد کے مقابلے میں کم پڑھائی کرتے
ہیں۔میں اپنے سکول کی دور کی بات کروں تو یہ باتیں کچھ حد تک ٹھیک ہیں۔ہم
پرائمری سکول میں تھے تو ہر استاد بس پڑھائی کے بجائے ڈانٹتے تھے۔میں اپنے
استاذہ کرام کی غیبت نہیں کرتا اللہ نہ کرے لیکن صرف اپنے دور کی بات کر
رہا ہوں۔تو میں سمجھتا ہوں کہ استاد جہاں بھی ہوں پڑھاتے تو بچوں کو
ہیں۔اور بچے کی زہن بڑی نازک ہوتی ہے۔محدود ہوتی ہے۔بچوں کو جب کوئی استاد
کم عمری میں کوئی بات بتاتے ہےپڑھاتے ہیں تو وہی باتیں ان کی زہن پر اثر
انداز ہوتے ہیں۔بچپن کی زہن بڑی تیز ہوتی ہے۔میں جب ادنی میں تھا تو ہمیں
یہ 6 کلمے دعائیں قنوت اور بھی بہت سے دعائیں پڑھائے جاتے تھے الحمداللہ
مجھے اس وقت کی وہ سب کچھ یاد ہیں۔وجہ اور کچھ نہیں بچپن میں زہن میں ہر
چیز بڑی آسانی سے بیٹھ جاتی ہے۔اج کل چونکہ دور بہت ہی مختلف ہے۔اج کا دور
ہمارے دور سے بلکل مختلف ہے۔یعنی ہمارے دور میں اور آج کی دور میں زمین و
آسمان کا فرق ہے۔اج کل بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون موجود ہیں۔اج کے دور
کے اساتذہ کرام کیلئے میں یہی عرض کرنا چاہوں گا۔کہ ہر استاد اپنے پڑھائی
کے ساتھ ساتھ یہ بچوں کو ضرور سکھائے کہ زندگی کیسی بسر کرنی ہے۔سب سے پہلے
اس بات پر زور دینا چاہئیے کہ بچوں کو موبائل فون سے سختی سے منع کریں۔بچوں
کو زندگی گزارنے کا تمیز سکھایا جائے۔بڑوں کی اداب،والدین کی اداب،بزرگوں
کی اداب،علماء کی عزت غریبوں پر رحم یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک اس قسم کی
باتوں کی آج کل ضرورت ہے۔ہر استاد کو چاہیئے کہ اس طرح کی باتوں کیلئے اپنا
ایک پیریڈ ضرور مختص کرے اس کیلئے ضرور وقت نکالے۔جیسا کہ میں نے شروع ہی
میں کہا کہ استاد کا رشتہ روحانی باپ کا رشتہ ہے۔استاد کی باتیں بچے سنتے
اور مانتے ہیں۔یہ ہم سب کی فرض ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اس طرح کی باتوں سے
آگاہ کریں لیکن سب سے ضروری یہ ہے کہ یہ باتیں۔ ایک استاد سکول میں بچوں کو
سکھائے۔اج کل کے بچے زیادہ تر موبائل فون کی وجہ سے بگھڑے ہوئے ہیں۔پڑھائی
پر اس کا رجحان بہت ہی کم ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی استاد پڑھائی بھی
نہ کریں اور بچوں کو اخلاقیات کا سبق بھی نہ پڑھائی تو ان کی تنخواہ تنخواہ
نہیں ایک زہر ہے۔ہم خواہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ہم دل سے
کوئی کام نہیں کریں جس کام کیلئے ہمیں بلایا گیا ہوں تو وہی تنخواہ ہم سب
پر حرام ہیں۔بچے کا روشن مستقبل اصل میں ایک استاد سے وابستہ ہوتا ہے۔اگر
استاد بچے کو صحیح پڑھائے تو بچہ ضرور کامیاب ہوگا۔پرائیویٹ سکول کیلئے
میرا یہ عرض ہے کہ اس میں قابل اور محنتی اساتذہ کا انتخاب کرنا
چاہیئے۔کیونکہ ہم سب کا سارا اعتماد اور اطمینان پرائیویٹ سکول کے اساتذہ
سے ہیں۔سرکاری سکول کے اساتذہ کرام سے یہ گزارش ہوگی کہ آپ کے سامنے جو بچہ
بیٹھا ہے یہ ایک غریب کا بچہ ہے اس بچے کے والد کے پاس اتنے پیسے نہیں ہے
کہ وہ اپنے اس بچے کو پرائیویٹ سکول لے جائے۔تو اپ کی فرض بنتی ہے کہ آپ اس
بچے کی مستقل پر توجہ دے یہ آپ کا بچہ ہے یہ اس معاشرے کا بچہ ہے۔یہ بچہ
اگر کل کامیاب ہوتا ہے۔تو سب سے پہلا حصہ اس میں ایک استاد کی محنت کا ہوتا
ہے۔کیونکہ جب کوئی استاد دل سے پڑھائی کرے گا تو شاگرد کل کا
ڈاکٹر،انجینیر،کمشنر،کوئی بڑے محکمہ میں بڑا افسر بنے گا۔اور اس کی وجہ اور
کوئی نہیں ہوگا بس استاد کی محنت اور دل سے پڑھائی۔امیر لوگوں کے بچے تو
بڑے بڑے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ایک تو وہ بڑے سکولوں میں پڑھتے ہیں اور ایک
ان کو زندگی میں سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہے۔غریب کا بچہ پہلے تو سکول
جانہیں سکتا اور اگر سکول جاتا ہے۔تو سرکاری سکول جاتے ہیں۔اج کل ہمارا
معاشرہ بہت زیادہ خطرناک بنتا جا رہا ہے۔کوئی اپنے بچوں کو سکول کے علاوہ
کسی دوسرے جگہوں پر جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔اج کل تو ہمارے معاشرے میں سکول
بھی محفوظ نہیں ہے۔سکولوں میں موبائل فون لے جاتے ہیں۔سب سے پہلے تو سکول
میں موبائل فون لے جانے پر پابندی لگنی چاہئیے۔ہر ایک استاد کو موبائل فون
کی برائیاں بیان کرنی چاہیئے۔اس کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔میں
سمجھتا ہوں کہ ہر سکول میں ہر استاد کو صرف ایک پیریڈ اس کیلئے ہونا چاہیئے
کہ بچوں کو اچھے زندگی کے چلنے کے طریقے ان کو سکھائے جائیں۔استاد اگر بچوں
کو محنت سے پڑھائی تو یہی بچے کل اس استاد کی محنت کو ہمیشہ کیلئے یاد
رکھیں گے۔ہم خود کہتے ہیں نا کہ ہمارے دور میں فلاں استاد نے یہ سکھایا
ہے،فلاں نے یہ سکھایا ہے۔تو اس طرح اگر استاد اپنے عہدے،مرتبے کو پہچانیں
اور اپنی فرائض کو نبھائیں تو ایک تو ان کی تنخواہ حلال ہوگی ان کی زندگی
میں برکت ہوگی،اور دوسرا بچوں کی دعائیں بچوں کی والدین کی دعائیں ہوگی۔ہم
اکثر دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بچہ تعلیم مکمل کرلیتا ہے تو وہ ڈگری حاصل کرنے
کے بعد صرف دو باتیں کرتے ہیں۔کہ مجھے یہ کامیابی اساتذہ کی محنت اور
والدین کی دعاؤں سے ملی ہے۔تو یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ایک استاد کی محنت
کو سرعام کروڑوں عوام کے سامنے لیا جاتا ہے کہ میری کامیابیوں کا راز یہی
استاد ہے۔تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر استاد کو ایسے محنت اور پڑھائی کی ضرورت
ہے کہ ہر کسی کا نام اچھے لفظوں میں ہر کامیاب شاگرد بیان کرسکے اور شاگرد
یہ فخر سے کہہ سکے کہ یہ ہماری اساتذہ کی محنت ہیں۔
|