معیاری اور متوازن نظام تعلیم
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چین کی جانب سے حال ہی میں یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ
2027 تک معیاری اور متوازن بنیادی نظام تعلیم قائم کرے گا۔اس حوالے سے جاری
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 2035 تک چین لازمی تعلیمی خدمات کے معیار اور
مساوات کے لحاظ سے دنیا کے صف اول کے ممالک میں سے ایک بننا چاہتا
ہے۔منصوبے کے مطابق آنے والے برسوں میں حکام اسکولوں کی سہولیات پر توجہ
مرکوز کرتے ہوئے ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے درمیان تعلیم کے
فرق کو ختم کرنے کے لئے کام کریں گے اور وسطیٰ اور مغربی چین میں کم ترقی
یافتہ علاقوں پر وسائل خرچ کیے جائیں گے ۔اس دوران شہری اور دیہی علاقوں،
مختلف اسکولوں اور مختلف سماجی گروہوں کے درمیان تعلیم کے فرق کو بھی دور
کیا جائے گا۔چینی حکام کے مطابق موئثر کوششوں سےدیہی اسکولوں کو ترجیح دی
جائے گی۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اسکول جانے کی عمر کے تمام دیہی
بچوں کو لازمی تعلیم ملے جبکہ دیہی اسکولوں کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے
کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مزید نئی جہتیں متعارف کرائی جائیں گی۔
اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ دیہی اسکولوں اور محدود وسائل کے
حامل علاقوں میں کام کریں ۔ تارک وطن کارکنوں کے بچوں کو فراہمی تعلیم کی
خاطر ایسی پالیسیاں اور اقدامات متعارف کروائے جائیں گے جس سے بچے اُن
اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے جہاں ان کے والدین کام کرتے ہیں۔اسی طرح
یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ یتیم اور دیکھ بھال سے محروم بچوں، دیہی علاقوں
میں پیچھے رہ جانے والے بچوں اور مشکل حالات میں رہنے والے بچوں کے لئے
بہتر تعلیمی خدمات فراہم کی جائیں ۔قومیتی آبادی والے علاقوں کے اسکولوں
میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے مزید وسائل استعمال کیے جائیں گے
۔دستاویز میں یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ حکومت تعلیم، خاص طور پر لازمی
تعلیم کے بجٹ میں اضافہ جاری رکھے گی۔
وسیع تناظر میں کسی بھی ملک و معاشرے کی اقتصادی سماجی ترقی میں تعلیم کو
کلیدی اہمیت حاصل ہے۔تعلیم ہی دراصل وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی معاشرے کی
مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔اگر یہ بنیاد کمزور ہو گی تو معاشرہ پائیدار
طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا اور اگر بنیاد مضبوط ہو گی تو ترقی کی نئی
راہیں اُس ملک و معاشرے کا مقدر ہوں گی۔عہد حاضر میں دنیا کے کسی بھی ترقی
یافتہ ملک کی مثال لے لیں ، تعلیم و تحقیق ہی اُس ملک کی کامیابیوں کے
پیچھے کارفرما ہو گی۔ دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ تعلیم کسی
معاشرے کو محض اقتصادی سماجی ترقی سے ہمکنار نہیں کرتی ہے بلکہ وہاں ایسی
اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پروان چڑھاتی ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتے ہوئے
اُس معاشرے کا خاصہ بن جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین نے ہمیشہ اس بات پر زور
دیا کہ اُس کی اپنی منفرد تاریخ، ثقافت اور قومی حالات ہیں اور چینی
خصوصیات کی حامل عالمی معیار کی جامعات کی تعمیر میں دوسروں کی تقلید نہیں
کی جا سکتی ہے ، چین کے نظام تعلیم کو ایک نئی راہ پر گامزن ہونا
چاہیے۔اچھی بات یہ ہے کہ چین اپنی منفرد خصوصیات کی روشنی میں اعلیٰ معیار
کی جامعات تعمیر کرنا چاہتا ہے تاکہ نوجوان چینی نسل اپنے اسلاف کی بلند
اخلاقی قدروں سے وابستہ رہ سکے اور عہد حاضر کے جدید رجحانات پر عمل پیرا
ہوتے ہوئے اپنی قومی خصوصیات کو ہمیشہ یاد رکھ سکے۔ یہی وہ نظام تعلیم ہے
جس نے چین کو ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے باوجود آج ترقی یافتہ ممالک کی صف
میں لا کھڑا کیا ہے اور ترقی و کامیابیوں کو سلسلہ جاری و ساری ہے۔
|
|