خالقِ کائنات سے ہم ہر وقت بات چیت کرسکتے ہیں بشرطیکہ
ہمارے پاس وہ ڈیوائس ہو جس کے ذریعےاس سے رابطہ ہو سکتا ہے۔ ویسے تو ایک
نمبر پر عمل (ڈائل نہیں ) کرنے سے بھی وہ کسی نہ کسی حد تک رابطہ میں رہتا
ہے ۔ 2 فرض فجر کے وقت، 4فرض ظہر ، 4فرض عصر ، 3فرض مغرب اور 4 فرض عشاء کے
باقاعدہ خشو و خضو کے ساتھ پڑھنے کے بعد دل کی آواز کو وہ ضرور سن لیتا ہے
یعنی 43442 اس کا نمبر ہے جو ان لوگوں کو دیا گیا جو اسلام کے نام پر
رجسٹرڈ ہیں اسی طرح دیگر رجسٹرڈ شدہ گروپس کے الگ الگ نمبر ہیں جن کے ذریعے
وہ لوگ اس سے رابطے میں رہتے ہیں۔گویا کسی نے اسلام نام کی ڈیوائس لے لی،
کسی نےہندو اور کسی نے عیسائی وغیرہ وغیرہ۔ کسی قسم کی ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ
کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ہر انسان پیدائشی طور پر اس سے مزیّن ہوتا
ہےجو روح کے ساتھ منسلک ہوتی ہے یا اسی پیکیج میں ہوتی ہے جس میں ضمیر ہوتا
ہے۔ہمیں کبھی کبھار تنہائی میں ایسا لگتا ہے کہ ہمیں کسی نے آواز دی یا
کوئی سامنے دروازے یا کھڑکی کے پیچھے سے گذر کر گیا ہے ، یہ دونوں اس حقیقت
کی علامات ہیں کہ ہماری آڈیو اور وڈیو دونوں ہی ہر وقت ٹیون اِن ہونے کی
کوشش میں رہتی ہیں جس کے بارے میں مَیں نے بذاتِ خود اپنے دوستوں یا جاننے
والوں سے دریافت کیا جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں ، انھوں نے
بالکل یہی بیان کیا کہ ہاں ہمیں بھی آوازیں اور پرچھائیاں سنائی اور دکھائی
دیتی ہیں لیکن طبعئی طور پر نہ تو ان کی بات سمجھ آئی اور نہ ہی ہم ان کو
چھوکر محسوس کر پائے۔یہ کیونکر ممکن نہیں جب کہ بلا شک و شبہ ہمارے طبعئی
جسم کا وجود بولتا چالتا اور چلتا پھرتا نظر آتاہے جس کی بنیادی وجہ ایک
غیر مرئی عنصر ہے جس کو روح کہتے ہیں جو ہمارے اندر پھونکے جانے کے بعد ہی
ہمارے جسم میں حرکت شروع ہوتی ہے ، جس روز یہ روح ہمارے جسم سے پرواز کر
جاتی ہے ، ہمارا جسم بے جان رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہر عمل پر نظر رکھنے اور اس
کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے والا عنصر بھی غیر مرئی ہے جس کو ضمیر
کہتے ہیں۔ ہم ان دو غیر مرئی نصب شدہ عناصر کے مالک ہوتے ہوئے غیر مرئی
آوازیں کیوں نہیں سن سکتے اور غیر مرئی پرچھائیاں کیوں نہیں دیکھ سکتے۔
میں نے تو سنا اور پڑھا بھی ہے ایسے لوگوں کے بارے میں جو غیر مرئی عناصر
سے باقاعدہ گفتگو کر لیتے ہیں اور خود بھی مرئی حالت میں تبدیل ہوکر پلک
جھپکتے ہی ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جو ہزاروں میل پر واقع
ہوتا ہے۔کئی سال پہلے میں نے ایک خبر انٹرنیٹ پر پڑھی تھی کہ کیلیفورنیا کی
ایک نہائیت ضعیف خاتون کی کسی بیماری کی تفتیش کے لئے جب اسکا دماغ کھول کر
دماغی لہروں کو چیک کرنے والے آلے کی ایک لِیڈ (پروب) دماغ کے مختلف حصوں
پر لگانے کےساتھ گفتگو کے دوران اچانک خاتون نے کہا "روکو، روکو ، یہیں
روکو بہت اچھا لگ رہا ہے" سرجن نے پوچھا کیا اچھا لگ رہا ہے تو اس خاتون نے
بتایا کہ وہ نو سال کی ہے اور اپنی ایک دوست کے ساتھ اپنے ڈرائنگ روم میں
بیٹھی ہے جس میں نیلے رنگ کے پردے لٹک رہے ہیں۔ سرجن نے لِیڈ ہٹائی تو
خاتون نے کہا "اب میں آپریشن تھیٹر میں لیٹی ہوں۔ یاد رہے کہ دماغ کے جتنے
آپریشن ہوتے ہیں ان میں مریض کو بے ہوش نہیں کیا جاتا کیونکہ دماغ مکمل
صحیح طور سے کام کر رہا ہوگا تب ہی تو معلوم ہوگا کہ اس پر آپریشن یا تفتیش
کے دوران جو کام کیا جارہا ہے اس میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں جو بے ہوشی کے
عالم میں معلوم نہیں ہو پاتیں۔لہٰذا اللہ کے برگزیدہ انسان جیتے جاگتے، ہوش
حواس میں اس مقام اور اس دور میں پہنچ سکتے ہیں جس میں وہ چاہیں۔
|