اسکولوں وکالجوں کاآغازہوچکاہے،کئی طلباء داخلے لے چکے
ہیں او رکچھ طلباء داخلے لینے کی کوشش کررہےہیں۔ہر چیزکی طرح تعلیم بھی اب
مہنگی ہوچکی ہے،ہر ماں باپ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اچھی اسکول میں
تعلیم حاصل کریں،ایسانہیں ہے کہ سرکاری اسکول وکالج اچھے نہیں ہیں،لیکن ان
اسکولوں وکالجوں میں بہتر تعلیم یافتہ اساتذہ ہونے کے باوجود بیشتر اساتذہ
کے پاس ایمانداری کی کمی ہے،جس کی وجہ سےبچوں کی تعلیم درست نہیں ہورہی
ہے۔خود اساتذہ اپنے بچوں کو پرائیوئٹ اسکولوں وکالجوں میں داخلہ دلوارہے
ہیں تو واضح طورپر اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اساتذہ کو اپنے ہی تعلیمی اداروں
پر یقین نہیں ہے۔اسی وجہ سے اب ہرکوئی اپنے بچوں کے مستقبل کوسنوارنے کیلئے
نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ دلواناچاہتاہے۔ان حالات میں سب سے بڑا مسئلہ
والدین کا ہے جو مالی طورپر کمزورہوتے ہیں،یااُن بچوں کا ہے جن کے والدین
نہیں ہیں اور اگرہیں بھی تو وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورانہیں
کرسکتے۔ان حالات میں بچے چاہ کربھی اچھی جگہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔یہ بھی
بات ہے کہ مسلمانوں کے اپنے تعلیمی ادارے ہیں،لیکن ان اداروں میں اچھی
تعلیم دینے کیلئے اچھے اساتذہ کو اچھی تنخواہ دینی ہوتی ہے،جس کی وجہ سے
طلباء کے پاس لازمی طورپر فیس وصول کرنی ہوتی ہے،مگر مسلمانوں میں یہ سوچ
ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنی قوم کیلئے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں تو
کیونکرفیس وصولی جاتی ہے۔ایسا کہنےوالوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں
کے تعلیمی ادارے یقیناً مسلمانوں نے مسلمانوں کیلئے بنائے ہیں،لیکن ان
اداروں کے اخراجات کی بھرپائی کیلئے آسمانی مددنہیں ملتی،بلکہ مسلمانوں کے
ذریعے سے ہی یہ ادارے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ
مسلمانوں میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو محدودوسائل رکھتے ہیں،ان کی آمدنی
بہت کم ہوتی ہے،باوجوداس کے اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے بڑی مشقت کرتے
ہیں۔ایسے میں مسلمانوں کا وہ طبقہ مالدارہے،صاحب استطاعت ہے اور جو کارِ
خیرکرنا چاہتے ہیں وہ اگر اپنے طورپر ہر سال کم ازکم دودوبچوں کی تعلیم کی
ذمہ داری لیتے ہیں تو اس سے قوم مسلم کے بچوں کا تعلیمی مسئلہ حل ہوسکتاہے
اور اگر یہ بچے تعلیم یافتہ ہوکر اپنی زندگی کو بہتر بنا لیتے ہیں تو یہ نہ
صرف قوم مسلم کیلئے بہترین سرمایہ بن کر ابھرینگےبلکہ ان کی مددکرنےوالوں
کیلئے ثوابِ جاریہ کا سبب بھی بنیں گے۔مسلمانوں میں ایک بڑا طبقہ ایسابھی
ہے جو مالدارہے مگر وہ اپنےمال کو تجوریوں اور بینکوں میں محفوظ کرنے کوہی
اپنی مالداری سمجھتے ہیں تو وہ سراسر نقصان میں ہیں۔ان کا یہ مال نہ ان کے
آخری وقت میں کام آئیگا اور نہ ہی آخرت میں کام آئیگا۔آخرت میں تو ان
کے بھلائی کام ہی کام آئینگے۔ہر سال کسی ایک یا دو بچے کا تعائون کرنا
کوئی بڑی بات نہیں ہے،بس ارادے کی ضرورت ہے۔
|