ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں پاکستان بہت سے
اندرونی و بیرونی بحرانوں کا شکار ہے۔ لیکن بلحاظِ مجموعی ہم ترقی یافتہ
دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم کئی حوالوں سے غلامی کی
زندگی بسر کرر ہے ہیں تو چنداں غلط نہ ہوگا۔ فلاح، کامرانی اور کامیابی کی
تمنا ہر شخص کرتا ہے۔ شاید کوئی انسان ایسا نہ ہوگا جو کامیاب نہ ہونا
چاہتا ہو اور جو یہ کہے کہ میں ناکامی کو پسند کرتا ہوں۔ انسان کے دل کی یہ
تمنا پوشیدہ ہوتی ہے لیکن انسان کی مختلف حرکات و سکنات سے مسلسل اپنے وجود
کا پتہ دیتی رہتی ہے۔ اگر انسان کے دل کو ٹٹولا جاسکے یا وہ اپنے دِل کی
بات زبان پر لانے پر آمادہ ہو تو یقینا وہ زبان سے بھی یہی کہے گاکہ
کامیابی میرا مقصد اور میرا ہدف ہے۔ انسانوں میں تمام اختلافات کے باوجود
کامیابی کی جستجو اور تلاش پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ انسان آج کے زمانے کا
ہو یا آج سے ہزاروں سال قبل کا، ناخواندہ ہو یا تعلیم یافتہ، مہذب ہو یا
ناآشنائے تہذیب و تمدن، شہری ہو یا دیہاتی، مرد ہو یا عورت، سب کامیاب
ہونا چاہتے ہیں اور کوئی نہیں چاہتا کہ ناکامی اس کے نصیب میں آئے۔ کس
انسان کو ہم کامیاب کہے سکتے ہیں اور کسے ناکام؟ اس سوال کے جواب میں
اکثریت انسانوں میں اتفاق نہیں پایا جاتا۔ کامیابی کی تعریف اور اس کے
پیمانے مختلف ہیں۔ کوئی عزت و شہرت کو کامیابی سمجھتا ہے۔ کسی کے نزدیک
اقتدار اور حکومت کا حصول کامیابی ہے۔ کسی کے خیال میں علم و تحقیق کی
بلندیوں پر پہنچ جانا کامیاب ہوجانا ہے اور کسی کے خیال میں ایک اچھے
کیریئر (Career) یعنی مفید معاشی مصروفیت ومادی سہولیات اور مال و دولت کا
حاصل ہوجانا کامیابی ہے۔
ان اختلافات کی موجودگی میں یہ طے کرنا کہ “کامیابی کیا ہے؟‘‘ بظاہر ایک
مشکل مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ مشکل آسان ہوجاتی ہے اگر ہم انسان کی
فطرت پر غور کریں اور خود کامیابی کے سلسلے میں اپنے دل کو بھی ٹٹول کر
دیکھیں کہ وہ حقیقی کامیابی کس چیز کو سمجھتا ہے؟
کامیابی کیا ہے؟ یقینا کامیابی کا وہی تصور درست ہوسکتا ہے جو انسان کی
فطرت سے مطابقت رکھتا ہو اور انسانی شخصیت کے تمام پہلوؤں کی رعایت کرتا
ہو۔ اس کے ساتھ ہم اپنے دل کو ٹٹولیں تو وجدانی سطح پر ہر انسان اس بات سے
آگاہ ہے کہ کامیابی کیا ہے؟ غور کیا جائے تو انسان کا دل دو باتوں کے حصول
کو کامیابی قرار دیتا ہے:
1/ اطمینان قلب
2/ تکمیل زات، یا اپنی شخصیت کا مکمل ارتقاء.
بظاہر انسان مال، دولت، آسائش، اقتدار، عزت اور شہرت سب کا طلب گار ہے
لیکن ان چیزوں کے ذریعہ جو اصل شے اس کی مقصود ہے وہ اطمینانِ قلب ہے۔ اکثر
ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ سب مادی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں لیکن اطمینان
قلب اسے حاصل نہیں ہوتا۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ مادی وسائل اور سہولیات
سے محروم شخص کا دل بالکل مطمئن ہوتا ہے اور اسے جمعیت خاطر حاصل ہوتی ہے۔
اسی طرح انسان دوسری چیز جو چاہتا ہے وہ اپنی ذات کی تکمیل اور اپنی شخصیت
کا ارتقا ہے۔ علم کی طلب اور اس کا حصول، حقیقتوں کی جستجو اور ان کا
انکشاف انسان کی ذات کی تکمیل ہی کے کچھ پہلو ہیں اخلاقی بلندیوں کا حصول
بھی تکمیل ذات کا ایک حصہ ہے۔
مگر آجکل کی جس ہنگامہ خیز زندگی میں نئی نوجوان نسل کے نزدیک وہ زندگی،
جسے کامیاب سمجھا جائے اس کا معیار کیا ہے؟ آپ کتابیں اٹھا کر دیکھیں، سوشل
میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو کلپس دیکھ لیں، جو جتنا امیر ہوگا اتنا ہی، اسے
اتنا کامیاب سمجھا جائے گا۔ یعنی پیسہ، پیسہ اور صرف پیسہ۔ اس کے بعد اگر
کوئی خوبی شامل کر لی جائے تو وہ پیسے کے ساتھ ساتھ ملنے والی شہرت ہے،
چاہے وہ دراصل بدنامی ہی کیوں نا ہو۔ بل گیٹس، مارک زکر برگ، ٹیسلا گاڑیاں
بنانے والے ایلن مسک، امیر ترین ایکٹرز اور اس سے ملتی جلتی بہت سی مثالیں
ہیں۔ اپنے ملک میں آجائیں تو کامیاب اسٹوری کے طور پر ملک ریاض کا نام لیا
جاتا ہے، بحریہ ٹاؤن والے ملک صاحب! اس کے مقابلے میں انسانیت کی خدمت کرنے
والوں کا نام عظیم شخصیات کے طور پر تو پیش کیا جاتا ہے لیکن انہیں کامیاب
شخصیات نہیں کہا جاتا۔ مرحوم عبدالستار ایدھی، رمضان چھیپا، ظفر عباس جے ڈی
سی وغیرہ کو ہی لے لیجیے، انہیں عظیم شخص تو پکارا جاتا ہے لیکن کامیاب شخص
ملک ریاض صاحب کو ہی کہا جاتا ہے۔ کسی قلم کار، کسی پرائیویٹ یا سرکاری
ادارے کے ملازم کو تو اس فہرست میں شامل کرنا شاید ہی کبھی ممکن ہوا ہو۔
پھر اساتذہ کے ساتھ یہ استادی ہوئی کہ محدود مراعات اور تنخواہوں کے ساتھ
زندگیاں گزار دینے والے اساتذہ شہرت پا بھی لیں تو ایک اچھے استاد اور کنگ
میکر کے طور پر تو یاد کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں پر کامیاب انسان
ہونے کا گمان بھی بہت کم کم کیا جاتا ہے۔ ساری عمر ذاتی گھر اور چھوٹی گاڑی
کی جدوجہد میں گزار دینے والے سرکاری ملازمین کو کیسے کوئی آئیڈیل سمجھے
اور ان کی زندگیوں کو کامیاب کہانی مان لے یہ اور بات کہ لوئر مڈل کلاس اور
مڈل کلاس میں سرکاری ملازمت کو ہی انسان کی معراج تصور کر لیا جاتا ہے۔
یقیناً وہ بہت سے کم تعلیم یافتہ اور مشکل سے زندگی گزارتے لوگوں میں سے
محنت کر کے سرکار کا ملازم ہونے کے درجے کو پہنچتا ہے۔ تو ان میں تو وہ
ہیرو ہی ہوا لیکن پھر بھی دنیا کے معیارات کے حساب سے کامیاب اسٹوری نہیں
بن سکتا۔ جس کے کار پورچ میں چار پانچ گاڑیاں ہوں، کسی اچھی ہاؤسنگ سوسائٹی
میں بڑا سا گھر ہو۔ بہترین کاروبار ہو تو بھائی صاحب کا رکھ رکھاؤ ہی کچھ
اور ہو گا۔ اس کے مقابلے میں آپ کے پاس ایک بائیک ہو یا مہران گاڑی، کسی
گزارے لائق ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرایے کا مکان ہو، آپ بہت محنتی ہوں اور
اپنا کام دل لگا کر کرتے ہوں، آپ کے احباب آپ کا احترام کرتے ہوں لیکن آپ
کا وہ رکھ رکھاؤ پھر بھی نہیں ہو گا۔ کیوں کہ آپ کے پاس بوریاں بھر کر
رکھنے کو پیسہ نہیں، آپ امیر ترین ایکٹر نہیں۔ نہایت معذرت کے ساتھ عرض
کرنا چاہوں گا ،آج کی یہ حقیقت بیان کرنا چاہوں گا کہ ہم پاکستان میں کسی
کا آئیڈیل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری زندگی کامیاب اسٹوری کے طور پر پیش
نہیں کی جاسکتی . پاکستان میں زیادہ تر افراد اب صرف دولت کو ہی کامیابی کا
معیار سمجھتے ہیں۔
|