سپورٹس ڈائریکٹریٹ، چوریاں لیکن ذمہ دار کون
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ْخیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کم و بیش 1.4 ملین روپے کی لاگت کے دو اے ایس بی شیشے جو کہ سکواش کورٹ میں لگائے جانے تھے اور کھیلوں کے ایک ہزار منصوبے میں بننے والے دو سکواش کورٹ کیلئے بیرون ملک سے کنٹریکٹر نے منگوائے تھے وہ غائب ہیں،کنٹریکٹر نے اپنی سہولت کے پیش نظر پشاور سپورٹس کمپلیکس میں یہ شیشے رکھے تھے تاکہ اسے آسانی سے اور بروقت متعلقہ جگہوں پر پہنچایا جائے لیکن پشاور صدر کی حدود میں واقع پشاور سپورٹس کمپلیکس سے یہ شیشے غائب ہوگئے جس کی اطلاع کنٹریکٹر کو کردی گئی جس پر گذشتہ دنوں ان شیشوں کی گمشدگی کے حوالے سے ایک مراسلہ بھی ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کو دیا گیا جس میں ان سے اس معاملے میں مدد کی درخواست کی گئی ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لاکھوں روپے مالیت کے ان شیشوں کی چوری کوئی پہلا واقعہ نہیں، سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھلاڑیوں کی پریکٹس کیلئے استعمال ہونیوالا میٹ جونیشنل گیمز کے دوران صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی حدود سے غائب ہوا لاکھوں روپے مالیت کے اس میٹ کی گمشدگی پر موجودہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد محمود نے ایکشن لیتے ہوئے ڈیوٹی کرنے والے تمام ملازمین کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی ہدایت کردی تاہم بعد میں یہ بتلایا گیا کہ یہ میٹ سٹور روم میں موجود ہے اور اب یہ موقف اپنایا جارہا ہے کہ یہ میٹ سابق ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان نے ایک سکول کو دیا ہے.لیکن اس حوالے سے کوئی تحریری مراسلہ بھی نہیں، جبکہ ایک ایسے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس جنہوں نے اپنی تعیناتی کے دن سے ہی اپنے دفتر کے دروازے پر لکھ دیا تھا کہ کھیلوں کے سامان کیلئے ان کے دفتر میں آنے کی ضرورت نہیں ان کی طرف سے ایک سرکاری سکول کو میٹ دینے کی بات حیران کن اور عجیب تر ہے.
پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کی تعمیر نو کے بعد ٹرف کو پانی فراہم کرنے والے لوہے کے بیشتر پرانے پائپ جنہیں اسد اقبال گیٹ پشاور سپورٹس کمپلیکس میں رکھا گیا تھا اور اس کی تعداد کم و بیش پینتالیس سے زائد تھی وہ بھی اسی جگہ سے غائب ہورہے ہیں اور ابھی اس جگہ پر چار پانچ پانی کے پائپ رہ گئے ہیں اور بیشتر غائب ہیں اسی طرح لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے پرانے دو مشینیں جس کی ایک مشین کی قیمت کم و بیش تین لاکھ روپے بنتی ہیں ان دونوں مشینوں کو ٹیبل ٹینس ہال کے پچھلے حصے میں سیڑھیوں کے پیچھے رکھا گیا تھا لیکن وہ بھی غائب ہیں.اور ابھی اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی.
رمضان المبارک کے مہینے میں ٹیبل ٹینس کے نئے کھلاڑیوں کیلئے لی جانیوالی ایک ملین روپے سے زائد کی دو مشینیں ٹیبل ٹینس ہال جسے اب ایرینا ہال کہا جاتا ہے سے غائب ہوگئی اس حوالے سے میڈیا پر خبریں آنے پر خاموشی اختیار کرلی گئی اور متعلقہ کوچ و اہلکاروں کو اس بارے میں بات کرنے سے منع کیا گیا تاہم پھر یہ کہا گیا کہ یہ دونوں روبوٹک مشینیں جس کی مالیت دو ملین روپے سے زائد ہیں وہ اب سٹور روم میں موجود ہیں لیکن اس سٹورروم کا انچارج کون ہے. اور انہیں وہاں کس کی اجازت سے رکھا اور کیا واقعی سٹور روم میں موجود ہے بھی یا نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے.۔
لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم پشاور کے میڈیا سنٹر کے اوپر دو واش رومز سے نامعلوم افراد نلکے، پائپ اور تمام چیزیں اتار کر لے گئے، انہیں کون لیکر گیا اور ان استعمال شدہ نلکوں اور پائپ و دیگر سامان کو کس کے کہنے پر وہاں سے ہٹایا گیا، کہاں پر انہیں رکھا گیا، اور ان نلکوں اور پائپ کو ہٹانے کے بعد ان واش روم کو کیوں تالے لگائے گئے یہ بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس پر تاحال سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ خاموش ہیں. پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں آسٹرو ٹرف کی صفائی کیلئے لی جانیوالی چار مشینیں جو بعد میں ٹرف کی صفائی کے بجائے ٹرف کو کاٹنے لگی اور اس انکشاف کے بعد چاروں مشینیں غائب کردی گئی حالانکہ ان مشینوں کی خریداری سے قبل انہیں چیک کیا جانا چاہئیے تھا لیکن لاکھوں روپے مالیت کی یہ مشینیں مالیوں کے انچارج کے کمرے میں رکھی گئی تھی جو راقم نے خود دیکھی تھی اب وہاں پر ہے یا نہیں لیکن لاکھوں روپے مالیت سے خریدی جانیوالی یہ مشینیں مالیوں کے کمرے میں کیا کررہی ہیں یہ بڑا سوالیہ نشان ہے.
کم و بیش ایک سو سے زائد مستقل اور ڈیلی ویج ملازمین کی موجودگی کیساتھ ساتھ اکیس کیمروں کی موجودگی میں سکواش کورٹ کی تعمیر میں استعمال ہونیوالے یہ شیشے کیسے غائب ہوگئے اور کون انہیں لیکر گیا یہ بڑا سوالیہ نشان ہے کیا چور اتنے ایڈوانس ہیں کہ انہوں نے پلک جھپکتے میں ہی اسے غائب کردیا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا.اسی طرح سرکاری دفتر سے قیمتی چیزیں غائب ہونے سے بچانے کیلئے لاکھوں روپے مالیت کے کیمرے انسٹال کئے گئے ہیں اور کیمرے ایسے انسٹال کئے گئے ہیں جس میں کسی کی شناخت بھی نہیں ہوسکتی، اکیس کیمروں میں دوکیمرے خراب ہیں، جبکہ اس کی سٹوریج چھ دن سے زائد کی نہیں یعنی چھ دن بعد کسی کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، سب سے مزے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان کیمروں کی چیکنگ کیلئے کوئی ایکسپرٹ بھی نہیں، الیکٹریشن کے عہدے پر لئے جانیوالے ایک اہلکار کو جسے سٹورروم کا انچارج بھی بنایا گیا ہے اسے یہ کیمرے دیکھنے کا انچارج بنایا گیا ہے، اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں کہ کتنی سٹوریج ہے، کہاں پر اہم ڈیٹا رکھنا ہے، یہ ایک سرکاری دفتر کا حال ہے جس پر اس صوبے کے عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لگ رہا ہے.
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ سیکورٹی پر رکھے گئے بیشتر اہلکار ڈیلی ویجز ملازمین ہیں جنہیں نہ تو سیکورٹی کا کوئی تجربہ ہے اور نہ ہی ان سے کسی بھی قانون کے تحت ان کا احتساب کرسکتا ہے کہ فلاں چیز کون لیکر گیا کیونکہ وقتی ضرورت کیلئے لئے جانیوالے ملازمین کے خلاف کارروائی بھی نہیں ہوسکتی.اور ایسے حالات میں جب انہیں اپنے روزگار کے جانے کا غم ہو، وہ کس طرح اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کسی اہلکار کی گاڑی کو چیک کرسکتے ہیں اور کیا وہ اتنی سکت رکھتے ہیں کہ کسی سے پوچھ سکیں کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے نکلنے والی بڑی گاڑیوں اور سامان میں نچلا سامان کس نے رکھا اور کون انہیں لیکر جارہا ہے.
کیا یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا آرہا ہے اور اس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے لوگ ملوث ہیں، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن ان تمام چیزوں کی طرف جانے سے قبل صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کے ڈیٹا کو بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی ملازمت سے قبل کرائے کے گھروں میں رہنے والے لوگ کس طرح بنگلوں،کوٹھیوں، گاڑیوں، بینک بیلنس اور کاروبار کے مالک بن گئے ہیں بیرون ملک ٹورز پر جاتے ہیں حالانکہ سرکار کے بیشتر اداروں کے ملازمین مہنگائی کے ہاتھوں ر و رہے ہیں لیکن یہ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جہاں پر سب سے زیادہ ملازمین خوش ہیں کیا ان ملازمین کو تنخواہوں میں سونے کی بسکٹ ملتے ہیں یا پھر ان کا کوئی خاص کاروبار ہے، جس کے باعث ان کے سر کڑاھی میں اور پانچویں گھی میں ہیں.
|