رب تعالی سے مال میں کثرت مانگیں یا برکت

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری اس عارضی دنیا میں ہمارے اردگرد کئی ایسے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں جن کو اللہ تعالی نے اپنی بیشمار نعمتوں سے نوازا ہوا ہوتا ہے لیکن ایسے لوگوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کے پاس مال و اسباب کی ایک کثیر تعدا نظر آتی یے جبکہ دوسرے وہ جن کو اللہ تعالی نے مال و اسباب تو پہلے کم دیا ہوتا ہے لیکن بعد میں اس مال میں اتنی برکت ہوجاتی ہے کہ مال و اسباب کی تعداد وہاں بھی کافی نظر آتی ہے اب دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مال کا کثیر ہونا صحیح ہے یا کم مال میں برکت ہوجانا صحیح ہے یا دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح کہیں کہ ہمیں اللہ تعالی سے اپنے لئے جو بھی مانگنا ہو وہ " کثیر " مانگنا چاہیئے یا " برکت " مانگنا چاہیئے ہماری آج کی تحریر اسی عنوان کو لیکر یے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسانوں کی جن دو اقسام کا میں نے ذکر کیا ہے انہیں پڑھکر آپ کو لفظ " کثیر " اور لفظ " برکت " کا مطلب یعنی معنی معلوم ہوگئے ہوں گے اگر دنیا کی ہر آسائش آپ کے پاس موجود ہے روپیہ پیسہ کی کوئی کمی نہیں ہے تو یہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ مال کثیر کہلائے گا اور کسی مال میں قدرت کی طرف سے برکت ہوجائے اور اس میں اضافہ ہوجائے تو یہ برکت کہلائے گا یعنی اللہ کی طرف سے غیبی مدد ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فی زمانہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کے پاس مال کی کثرت ہوتی ہے تو وہ اپنے اس مال اور بیوی بچوں میں اتنا محو ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالی کو یکثر بھول جاتے ہیں اور وہ مال وہ بیوی بچے انہیں یاد الہی سے غافل کردیتے ہیں اللہ تعالی نے اس کے متعلق قران مجید فرقان حمید کی سورہ منافقون کی آیت 9 میں ارشاد فرمایا ترجمعہ کنزالایمان کہ
" اے ایمان والوں تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گا تو وہ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں "۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کثرت مال کے متعلق ترمزی کی ایک حدیث جو حضرت کعب بن مالک سے مروی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " دو بھوکے بھیریئے جو بکریوں پر چھوڑ دیئے جائیں تو وہ ان بکریوں کو اتنا خراب نہیں کریں گے جتنا مال اور عزت کی حرص انسان کے دین کو خراب کردیتی یے " یعنی مال و اسباب کی بے جہ کثرت بھی انسان کو اپنے رب تعالی سے دور کردیتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آیئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کثرت اور برکت میں کیا اہم فرق ہے مال کی کثرت دراصل انسان پر ایک آزمائش ہوتی ہے جبکہ مال میں برکت اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہوتی ہے مال کی کثرت انسان کا نصیب ہوتی یے جبکہ مال میں برکت انسان کے لئے خوش نصیبی ہوتی ہے مال کی کثرت سے انسان یہ سوچتا ہے اور اس کا ایک اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ہر ضرورت پوری ہوگئی جبکہ برکت اللہ تعالی کی طرف سے گارنٹی ہوتی ہے کہ ضروریات پوری ہوجائیں گی ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انسان کو مال کے کثرت کی اگر خواہش ہو تو وہ اس کو بے سکون کردیتی ہے جبکہ برکت کی خواہش سے انسان کے اندر صبر اور قناعت پیدا ہوجاتی ہے مال کی کثرت اکثر انسان کو ناشکرا کردیتی ہے وہ یہ سمجھنے لگتا یے کہ یہ سب اس کا حق تھا جو اسے ملا جبکہ برکت سے انسان شکر گزار بناتا ہے اور اللہ تعالی کی اس نعمت پر سربسجود ہوتا ہے اور آخر میں سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ کثرت مال والے لوگ بروز محشر حساب کتاب میں پھنس جائیں گے جبکہ برکت والے لوگ اس سے محفوظ رہیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں فی زمانہ ہر شخص صرف دولت کے پیچھے بھاگتا ہوا اور اس کے حصول کی خاطر ہر ناممکن کو ممکن کو بنانے میں مصروف عمل نظر آتا ہے اور یہ فطرت انسان کے اندر ایک بیماری کی صورت میں شروع سے ہی نظر آتی ہے لیکن آپ انبیاء کرام علیہم السلام کا دور دیکھیں تو خود سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ذات اقدس جو دو جہاں کے سردار و مالک تھے صحابہ کرام علیہم الرضوان ہر وقت آخرت کی فکر میں رہتے تھے اور جن کے پاس مال کی کثرت تھی وہ بھی اس کو اللہ تعالی کی امانت سمجھتے تھے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مسند احمد کی ایک حدیث جس کے راوی ہیں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سرکار علیہ وسلم نے فرمایا کہ " تھوڑا مال جو انسان کی ضروریات کو پورا کردے وہ اس مال کثیر سے بہتر ہے جو انسان کو غفلت میں ڈال دے " مال کثیر کا ہونا بھی اللہ تعالی کی ایک نعمت یے لیکن اللہ رب العزت کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں پر عمل پیرا ہوکر جو اپنی زندگی گزارتے ہیں ان کے لیئے مال کثیر بھی نعمت کی شکل اختیار کرلیتا یے لیکن آج کے اس دور میں مال کثیر والے لوگوں میں ایسا نظر نہیں آتا بلکہ وہ مال کی کثرت سے اپنے رب سے ہی غافل نظر آتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ بات صحیح ہے کہ آج کا دور سائنس کی ترقی کا دور ہے اور انسان کے لئے مال و دولت حاصل کرنے کے نت نئے طور طریقے ایجاد ہوگئے ہیں ملوں اور فیکٹریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے لوگوں کے لئے روزی کمانے کے دروازے بیشمار کھول دیئے ہیں اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ جو کل ٹوٹے پھوٹے اور چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا آج علیشان مکان میں رہائش پزیر ہے جس کے پاس سائکل تھی اس کے پاس موٹر سائکل اور موٹر سائکل والے کا پاس کار آگئی ہے سڑکوں پر رینگتی ہوئی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی گاڑیاں اس طرح نظر آتی ہیں جیسے کسی درخت پر رینگتی ہوئی چیونٹیاں لوگوں کے پاس مال و دولت میں اضافہ ہی ہوتا جاریا یے لیکن پھر بھی ہر انسان پریشان ہے قلبی سکون کسی کو حاصل نہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کوئی شخص کام میں برکت نہ ہونے کا گلہ کرتا ہوا نظر آتا ہے تو کوئی گھریلو ناچاکیوں کی وجہ سے پریشان ہے کوئی ناجائز مقدموں میں الجھا ہوا ہے تو کوئی کئی بیماریوں میں مبتلہ نظر آتا ہے تو کوئی بیوی بچوں کی نافرمانی کی وجہ سے پریشان نظر آتا ہے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں جب ہر آسائش اور ہر مشکل کا حل موجود ہے تو خود کشی اور قتل و غارت کے واقعات اتنے عام کیوں ہیں ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں دراصل لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ سب کچھ وہ پیسوں سے حاصل کرلیں گے یہاں تک کہ سکون بھی جبکہ ایسا نہیں ہے کسی نے کیا خوب اور سچ کہا ہے کہ دنیا کا سب سے دولت مند انسان بھی چاہے تو اپنی دولت کے عیوض سکون نہیں خرید سکتا اگر ایسا ہوتا اور مال کی کثرت سے اگر سکون ملتا تو قارون دنیا کا سب سے پرسکون انسان ہوتا۔ حکومت اور عہدوں سے اگر سکون ملتا تو فرعون دنیا کا سب سے پرسکون انسان گزرتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ دولت اور عہدوں کے باوجود پریشان حال رہے اور پریشانی کے ساتھ ہی عبرتناک موت کے ذریعے دنیا سے چل بسے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دولت اورجائداد کے ذریعے عالیشان اور اونچی بلڈنگیں بناسکتا ہے ، مگر سکون نہیں خرید سکتا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لیئے کہا گیا کہ مال کی کثرت کی دعا نہ کریں مال میں برکت کی دعا کریں اللہ تعالی اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق جسے چاہے اسے کم یا زیادہ عطا کرتا ہے وہ چاہتا ہے تو کم آمدنی میں بھی برکتوں کے خزانے کھول دیتا ہے اور ہر طرح سے آرام و راحت میسر کرتا ہے اور جب چاہتا ہے تو مال و دولت کے باوجود مختلف مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا رکھتا ہے اور ہزار کمائی کے باوجود گھر میں برکت کا نام و نشان نہیں ہوتا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے :

وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ     ﴿الأعراف : ۹۶﴾                    
ترجمعہ کنزالایمان ۔۔۔
" اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکت کے دروازے کھول دیتے "
اس آیت کریمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ برکتیں بھی وہاں نازل ہوتی ہیں جہاں انسان اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہوئے تقوی اور پرہیزگاری اختیار کریں گے ویسے بھی جب انسان کسی اچھے کام کی سچی نیت کرتا ہے اور اسے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کرنے کی خواہش کرتا ہے تو اس میں رب تعالی برکت عطا فرمادیتا یے اور خوب عطا فرماتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں برکت ہونے کے حوالے سے سب سے پہلے میں آپ لوگوں کی خدمت میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے کثیر تعداد میں پیش آنے والے واقعات میں سے ایک واقعہ تحریر کرریا ہوں جسے پڑھکر آپ لوگوں کو اندزہ ہوگا کہ اللہ تعالی اپنی عطا سے لوگوں کے مال میں کس طرح برکت عطا فرماتا ہے
حضرت اُم اوس البہزیہ رضی اللہ عنہانے ایک مرتبہ گھی صاف کرکے ایک برتن میں ڈالا پھر اسے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیہ کے طورپر بھجوایا ۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ازراہِ محبت وشفقت اس پُر خلوص ہدیہ کو قبول فرمالیا اور ڈبے میں موجود گھی کو اپنے پاس رکھ لیا۔حضرت اُم اوس کے لیے برکت کی دعافرمائی اور گھی کا برتن واپس بھجوادیا۔جب یہ برتن ان کے پاس پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعاکی وجہ سے گھی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔حضرت اُم اوس کو یہ گمان ہوا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا ہدیہ قبول ہی نہیں فرمایا،
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ بہت پریشان ہوئیں،فوراً بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئیں اوراپنا پُرخلوص ہدیہ قبول نہ ہونے کے گمان میں زاروقطار رورہی تھیں ،حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے اپنی اس خادمہ کی بے قراری وپریشانی کو دیکھا تو حاضرین سے فرمایاکہ اس خاتون کو تسلی دو اوراصل واقعہ سے آگاہ کرو۔حاضری نے انہیں بتایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا ہدیہ قبول فرمالیا اوراس گھی کو دوسرے برتن میں انڈیل دیا گیا تھا۔ پھر تمہارے لئے برکت کی دعاکی گئی تھی جس کی وجہ سے تمہارے برتن کے کناروں پر بچا ہوا گھی معجزانہ طور پر اس قدر بڑھ گیا۔ جب وہ واقعہ سے آگاہ ہوئیں تو مطمئن ہوکر گھر واپس آگئیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت موسیٰ بن عمران رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکی بدولت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس گھی میں اتنی برکت ڈال دی کہ حضرت اُم اوس رضی اللہ عنہا اس برتن میں سے نہ صرف حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ حیاتِ مبارکہ میں گھی استعمال کرتی رہیں بلکہ خلفاء راشدین اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے زمانے تک بھی وہی گھی استعمال کرتی رہیں۔
(اسد الغابہ فی معارفۃ الصحابہ ابن اسیر)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح جب حضرت ایوب علیہ السلام پر آزمائش آئی آپ علیہ السلام کے گھر کی چھت گرنے سے آپ علیہ السلام کے بچے ہلاک ہوگئے جہاں مویشی تھے وہ چھت گرنے سے مویشی ہلاک ہوگئے آپ علیہ السلام کا مال جاتا رہے اور آپ علیہ السلام کے جسم پر مختلف بیماریوں کا حملہ ہوا بعض مفسرین نے لکھا یے کہ کوڑھ کا مرض لاحق ہوگیا تھا سب نے ساتھ چھوڑ دیا یہاں تک کہ بستی والوں نے بھی آپ علیہ السلام کو بستی سے نکال دیا لیکن آپ علیہ السلام نے صبر کی انتہا کردی اور اتنا صبر کیا کہ اللہ کو آپ علیہ السلام کا صبر کرنا پسند آگیا اور پھر جب آپ علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارہ تو رب تعالی نے آپ علیہ السلام کی پکار سنی اور آپ علیہ السلام کی دعا ابول ہوئی اور اللہ تعالی نے قران مجید کی سورہ الانبیاء میں آپ علیہ السلام کا ذکر کیا اس صبر کی بدولت اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کے بچے دوبارہ زندہ کردیئے اور ان میں برکت عطا فرمادی جو مال مویشی مر چکے تھے ان کو زندہ کرکے ان میں برکت عطا فرمادی مال میں کئی گناہ برکت عطا فرمادی تو یہ سب اللہ تعالی کی مرضی اور منشاء پر راضی رہنے کا نتیجہ تھا حضرت ایوب علیہ السلام کے اس پورے واقعہ کو ان شاء اللہ کسی تحریر کا حصہ بناکر آپ تک پہنچانے کی سعادت حاصل کروں گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ اگر انسان اللہ تعالی کی آزمائش پر شکر ادا کرتے ہوئے صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ رب العزت اس کو اپنے کرم خاص سے اس کے مال اولاد اور تمام معاملات میں برکتوں کے تمام دروازے کھول دیتا ہے اور یہ ہی وہ برکت ہے جس کی طلب ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان کو ہوتی ہے اور ہونی چاہیئے اللہ تعالی نے سورہ الانبیاء میں دوسرے انبیاء کرام کا بھی ذکر کیا ہے جن میں حضرت اسمعئیل علیہ السلام حضرت یونس علیہ السلام حضرت ادریس علیہ السلام حضرت ذکریا علیہ السلام اور حضرت یحیی علیہ السلام جنہوں نے صبر کیا اور پھر اللہ تعالی کو پکارہ تو اللہ تعالی نے ان کی دعا سنی اور نہ صرف اپنا فضل فرمایا بلکہ ان کے مال و اولاد میں برکتیں عطا فرمائیں اور قران مجید فرقان حمید میں یہ بھی ذکر کیا کہ " بیشک ان میں متقی اور نیکوکار کے لیئے نشانیاں ہیں " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے اور آپ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے اس کا ہر حال میں شکر ادا کریں تکلیف یا پریشانی کو اللہ تعالی کی رضامندی سمجھتے ہوئے زندگی گزاریں اور انے والی ہر آزمائش پر صبر کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑنا چاہیئے اور اللہ تعالی سے مال کثرت مانگنے کی بجائے کم مال میں برکت کا سوال کریں یعنی اپنے رب تعالی سے مال میں کثرت نہیں بلکہ برکت مانگیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں جو بھی عطا کرے چاہے کم ہی کیوں نہ ہو لیکن اپنے کرم خاص سے اس میں برکت عطا کرے اور ہمیشہ اپنی یاد میں مصروف عمل رکھے آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 112 Articles with 78164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.