ابھی حال ہی میں تیس جولائی کو دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف اقوام متحدہ کا عالمی دن منایا گیا ہے۔اس دن کا مقصد جدید دور کی غلامی کے مسائل کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے ،جو اکثر جبری مشقت کی شکل اختیار کرتا ہے۔رواں برس اس دن کا موضوع رہا"انسانی اسمگلنگ کے شکار ہر فرد تک پہنچیں، کسی کو بھی پیچھے نہ چھوڑیں" ۔ اس دن حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سرکاری اداروں اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کو مضبوط بنائیں، متاثرین کی مدد کریں اور سزا کے نظام کو یقینی بنائیں۔
پاکستان کے تناظر میں اس دن کی اہمیت ویسے بھی کئی گنا زیادہ ہے جہاں انسانی اسمگلنگ سے جڑے حالیہ سانحات نے کئی انسانی المیوں کو جنم دیا ہے اور سماج میں اس برائی کے خلاف آوازیں بلند کی گئی ہیں۔رواں سال کے آغاز میں یو این او ڈی سی نے انسانی اسمگلنگ پر اپنی 2022 کی عالمی رپورٹ جاری کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے عالمی لائحہ عمل کے تحت اپنی نوعیت کی اس چھٹی رپورٹ میں 141 ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے اور 2017 سے 2021 کے درمیان سامنے آنے والے کیسز کی بنیاد پر عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر انسانی اسمگلنگ کے نمونے اور بہاؤ کو پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ سے متعلق سب سے بڑا ڈیٹا بیس استعمال کیا گیا ہے، جس میں 2003 سے 2021 کے درمیان دنیا بھر میں پکڑے گئے ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ متاثرین اور تین لاکھ مشتبہ مجرموں کا احاطہ کیا گیا ہے، جو اسمگلنگ میں منظم جرائم کے گروہوں کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔
اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ عالمی سطح پر انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کی تعداد میں 11 فیصد کمی دیکھی گئی، تاہم اس کے اسباب میں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں محدود ادارہ جاتی صلاحیت، کووڈ 19 کے تناظر میں اسمگلنگ کے مواقع میں کمی اور زیادہ خفیہ مقامات پر کام کرنے والے اسمگلرز ، شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود مغربی اور جنوبی یورپ، وسطی ایشیا، وسطی اور جنوب مشرقی یورپ کے ساتھ ساتھ شمالی امریکہ جیسے علاقوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔کووڈ 19 وبائی صورتحال نے اسمگلنگ سے جڑی سرگرمیوں کو بھی کافی حد تک تبدیل کیا ، اسے مزید زیر زمین دھکیل دیا اور ممکنہ طور پر حکام کی نظروں میں آنے کے امکانات کو کم کرتے ہوئے متاثرین کے لئے خطرات میں اضافہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 41 فیصد متاثرین جو انسانی اسمگلروں کے چُنگل سے بچنے میں کامیاب رہے، نے اپنی پہل پر حکام سے رابطہ کیا ،یہ ایک اور واضح علامت کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف ردعمل کم پڑ رہا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف عالمی ردعمل کی بات کی جائے تو حالیہ عرصے میں کئی ممالک نے اس حوالے سے موئثر اقدامات اپنائے ہیں۔ عمان نے ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے، جس میں منشیات اور جرائم سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر کے تعاون سے بین الاقوامی اور مقامی ماہرین دونوں کی بصیرت شامل ہے۔کینیا نے اس جرم سے نمٹنے کے لیے انسانی اسمگلنگ سے متعلق قومی لائحہ عمل کا آغاز کر دیا ہے۔چین نے بھی خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا ہے اور رواں سال "دو اجلاسوں" کے دوران قومی قانون سازوں اور سیاسی مشیروں نے اس موضوع پر تعمیری تبادلہ خیال کیا ۔ویسے بھی چین نے خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کو بہت اہمیت دی ہے اور خواتین اور بچوں کی اسمگلنگ کی روک تھام میں اہم پیش رفت انہی پالیسیوں کا ثمر ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ 2013 سے 2021 تک چین میں انسانی اسمگلنگ کے جرائم کی تعداد میں 88.3 فیصد کمی آئی ہے۔اس کامیابی کا سہرا چینی حکومت کی زبردست کاوشوں اور کثیر الجہتی میکانزم کے نفاذ، بین الاقوامی تعاون میں اضافے اور چینی معاشرے کے تمام شعبوں میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف ابھرنے والی قوتوں کو جاتا ہے ۔چین کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کی بنیادی وجوہات سے نمٹتے ہوئے اسے جامع انداز میں حل کیا جائے اور مربوط ورکنگ میکانزم سے انسانی اسمگلنگ کی لعنت کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے۔چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف جنگ ایک منظم منصوبہ ہے جس کے لئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
|