آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
ایک زمانے میں بین لاقوامی شہرت کے حامل کرکٹ کے کھلاڑ ی کو گھر سے اسٹیڈیم آنے جانے کا کرایہ مل جانا بڑی بات ہوتی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جس میں کرکٹ کے کھلاڑیوں سے مشہورِ زمانہ فلمی اداکارائیں دوستی کرنے کو ترستی تھیں، اس دور میں طنزیہ شعر جو مشہور ہؤا وہ تھا کھیلو گے کودو گے تو بنو گے نواب، پڑھو گے لکھو گے تو ہوگے خراب۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں دیگر طنزیہ اشعار، مقولے یا محاورے بھی بنتے اور بگڑتے رہے جیسے بچوں سے پوچھا جاتا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے تو وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کرتے کہ ہم بڑے ہوکر ڈاکٹر یا انجینئر بنیں گے ،اب وہ وقت آیا ہے جس میں بچے کہنے لگے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر چیف جسٹس یا آرمی چیف بنیں گے ، کسی نے تو نام ہی لے دیا کہ میں ملک ریاض بنوں گا۔بچہ تو بچہ ہی ہوتا ہے اس کو کیا معلوم کہ قسمت کسے کہتے ہیں اور قسمت کے فیصلے کون کرتا ہے؟ کوئی بات نہیں شعور کے بعد فہم و فراست والی اسٹیج میں جب اس جستجو میں پڑیں گے تو ان کو آشکار ہو جائیگا کہ کچھ بھی بننے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن اس کے متوازی نظام میں جو تبلیغ ان بچوں کو ایک کشمکش کا شکار کرتی ہے وہ ہے حلال و حرام کا فلسفہ۔اگر اس کو فلسفہ کہیں تو مرتے دم تک سمجھ نہ پائیں لیکن اگر خالقِ کائنات کا حکم جانیں تو ایک لمحہ بھی نہیں لگتا حلال کو جائز و حرام کو ناجائز قبول کرنے میں۔سبحان اللہ! |