اسلام۔۔معاشرتی تخریب کا نام نہیں ہے

سانحہء جڑانوالہ پر مذمتی نوٹ میں اسلام کا صحیح تشخص اجاگر کرنے اور ملک پاکستان میں اصلاحی و فلاحی معاشرے کی تشکیل نو کے حوالے لائحہ عمل اختیار کرنے پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ تخریبی سوچ رکھنے والے گروہوں اور طبقاتی منافرت پھیلانے والوں کا سد باب کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ تاکہ اقوام عالم پاکستان کو ایک انتہا پسند معاشرہ نہیں ایک بہترین فلاحی معاشرہ تصور کر سکیں۔


خالق کائنات نے اس عالم رنگ و بو کی تخلیق اپنے تعارف کے لئے فرمائی۔ رنگ و نسل اور طبقاتی و مذہبی تفاخر کے بغیر حضرت انسان کا ظہور فرمایا۔ انسانی شعور و ادراک کے تمام در وا کر دیئے تاکہ ہم اچھائی اور برائی کا ادراک کر سکیں۔ مختلف قبیلوں اور گروہوں میں بانٹا تاکہ ہماری پہچان ہو سکے اور تقوی کو وجہ عزت و آبرو بنایا۔ مذہب کا لباس پہنا کر تہذیب سکھائی کیونکہ مذہب سے تہذیب ہے تہذیب سے مذہب نہیں۔

مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حضرت انسان مذہب کے اصل مفہوم سے بے گانہ رہا ہے۔ اس نے محض شرعی تقاضوں کو مکمل مذہب سمجھنا شروع کردیا ۔ حالانکہ شریعت کا تعلق دین سے ہے اور دین مذہب کا صرف ایک حصہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس ایک حصے کو پوری تہذیب سے بالا تر کر دیا ہے۔

بحیثیت مسلمان ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارا مذہب بھی اسلام ہے اور دین بھی اسلام۔ اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے دین کا بول تو بالا کر دیا مگر مذہب کے حقیقی معنوں اور اہمیت سمجھنے سے قاصر رہے۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض شریعت ہی نہیں لے کر آئے بلکہ زندگی گزارنے کے انداز بھی لے کر آئے۔ آپ نے شائستہ مزاجی، حسن خلق اور بہترین معاشرتی اقدار سے بھی روشناس کروایا۔ حقوق انسانی کو حیات انسانی کے لئے لازم و ملزوم ٹھہرایا۔ آپ نے عالم آب و گل میں بسنے والوں کو تہذیب و تمدن کے بہترین اسلوب سکھائے۔ اور نوع انسانی کو ظلم و جبر اور وحشت و بربریت سے آزاد کروایا۔انسان کے دل میں انسان کا احساس پیدا کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نسلی و مذہبی تفاخر سے بالا تر ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کے بہترین اصول متعارف کروائے۔ آپ کی حیات طیبہ معاشرتی زندگی کی بہترین عکاس رہی ہے۔ آپ کے اخلاق مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے طرز معاشرت کی بہترین مثال رہے۔ اسی لئے تو مائیکل ہارٹ جیسے انگریزی مصنفوں اور دانشوروں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلی ترین اخلاق کا علمبردار اور معاشرتی اقدار کا بہترین محافظ سمجھا اور انہیں دنیا کی متاثر کن شخصیات میں صفحہء اول میں درجہ اول پر نامزد کیا۔

مگر آج موجودہ صورتحال کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم نے اس نبی کے لائے ہوئے خوب صورت مذہب کو محض دین کی حد تک محدود کر کے مذہب کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اور بہترین معاشرتی نظام کی حامل قوم آج انتہا پسند قوم بن چکی ہے۔
مذہب کے نام پر انسانیت سوز اقدامات ہماری شناخت بن چکے ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور غیر واضح جذباتیت نے ہمیں قومی و بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ اقوام عالم میں ہمارا معاشرتی تشخص سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ ہم تہذیب پر سمجھوتا کر لیتے ہیں مگر دین کے معاملے میں سیخ پا رہتے ہیں۔ ہم اپنے انداز زندگی، طرز بود وباش ، عادات و اطوار ، شغل اشغال اور تفریح طبع کے لئے تو ہر ممکن کوشش کر کے دوسری اقوام کی پیروی کرنا چاھتے ہیں مگر ایک شریعت کو لے کر ساری دنیا میں انتشار کی وجہ کیوں بن رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ حال ہی میں جڑانوالہ میں چند انتہا پسند مسلمانوں کی جانب سے گرجا گھر پر ہونے والے دل سوز حملے نے ہمارے اسلامی تشخص کو مزید برباد کر دیا ہے۔ کیا ہمارا اسلام ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہمارا دین جلاؤ گھیراؤ کا دین ہے؟ کیا قرآن کے بے حرمتی کے جواب میں بائبل کی بے حرمتی جائز ہے؟ کیا ایک رسول کی شان میں گستاخی کا جواب دوسرے رسول کی شان میں گستاخی ہے؟ کیا ایک مقدس کتاب کی بے حرمتی کا بدلہ دوسری مقدس کتاب کی بے حرمتی ہے؟ کیا مسجد کے تقدس کی خاطر مندر یا گرجا گھر کے تقدس کو پامال کرنا احسن عمل ہے۔ حلال و حرام کی دعوے دار قوم کیا اس عمل کو حلال قرار دے گی یا حرام؟ چرچ کے گردونواح میں گھروں میں لگنے والی آگ اور عورتوں اور معصوم بچوں کی آہ و زاری کیا امن کا پرچار کرنے والے مذہب کی درست تصویر ہے؟ عورت کی آواز کو نامحرم تک نہ پہنچنے کا درس دینے والی قوم عورتوں کو سر بازار رلا کر کون سی سنت پوری کر رہی ہے؟ کیا ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہنے والی امت کے لئے خون کی ہولی کھیلنا ایک کھیل بن چکا ہے؟ کیا اقلیتوں کے تحفظ کا جھنڈا لہرانے والی قوم ان کے تن بدن سے لباس نوچ کر خوش ہو رہی ہے؟

یہ سوالات آج ہر ذی شعور اور مہذب قوم کے سوالات ہیں جن کا جواب شاید آج اس امت مسلمہ کے پاس نہیں ہے جس نے دنیا کو تہذیب و تمدن کے طور طریقے سکھائے تھے۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا کی مہذب قومیں ہم سے تہذیب سیکھ کر آج ہمیں ہی بد تہذیب کہہ رہی ہیں۔ قصور ہمارا اپنا ہے۔ غلطی ہماری اپنی ہے۔

اسلام نے محض نعرے بازی کی سیاست نہیں کی بلکہ عملی تاثر دے کر بنی نوع انسان کو اخلاق فاضلہ کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو حسن عمل سے لے حسن کردار تک کے مدارج طے کروائے ہیں۔اسلام کی دعوت صرف منبر و محراب تک نہیں ہے بلکہ کرہء ارض کے گوشے گوشے تک ہے۔ اسلام جذبات کا نام نہیں ، احساسات کا نام ہے۔ بقول ڈاکٹر اظہر وحید " اسلام ۔۔"ا" کا سلام ہے، مخلوق کے نام ہے۔" اسلام تو دین فطرت ہے۔ اور سلامتی اس کی پہچان ہے۔ عقائد اسلامی بعد میں آتے ہیں فطرت پہلے آتی ہے اور جس دین کی فطرت ہی سلامتی ہو وہ کسی کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے؟

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انتہا پسندی کی زنجیروں سے خود کو آزاد کریں۔ ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی تشکیل نو میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم اپنے اسلامی تشخص کا احیاء اپنے علم و عمل سے کریں نہ کہ جلاؤ گھیراؤ سے۔ ورنہ چودہ سو سال کی یہ محنت پلک جھپکنے میں تباہ و برباد ہو جائے گی۔ تنگ نظری کی بجائے حقیقت کی عینک لگا کر وسعت نظر پیدا کریں اور اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ بحال کریں۔ شریعت اسلامی کی بقا کے ساتھ ساتھ دوسری شریعتوں کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ خالق کائنات نے اس دنیا کا باغ انسان کے لئے سجایا ہے اب ہماری کوشش سے اس میں حسن و عمل کے پھول بھی کھل سکتے ہیں اور غیض و غضب کی خزاں بھی چھا سکتی ہے۔

بحیثیت مسلمان یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مذہب اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھیں ۔ دینی تقاضوں کی بقا کے لئے مذہبی تقاضوں کو نہ بھولیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی معاشرہ ہمیشہ مثالی معاشرہ رہا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے تفرقہ بازی، اور انتہا پسندی کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ اور ایسے عناصر کا فوری طور پر سد باب کیا جائے، جو مذہب کے نام پر معاشرتی تخریب کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک مخصوص اور محدود فکری طبقہ جسے نہ تو مذہب سے مکمل واقفیت ہے، نہ شرعی احکامات کی پاسداری کا احترام۔ ملک پاکستان کی سالمیت و بقا کے لئے خطرہ ہے۔ ایسے ناسوروں کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

المختصر! بحیثیت مسلمان اور بطور پاکستانی شہری انسانی اقدار کا فروغ اور تحفظ ہمارا اولین فریضہ ہے۔ اور اسی میں اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی بھی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو صحیح معنوں میں اسلام اور اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Waseem Aakash
About the Author: Waseem Aakash Read More Articles by Waseem Aakash: 5 Articles with 2883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.