وَحْدَہٗ لا شَرِیکَ لہٗ

خالقِ کائنات نے جو بھی شے تخلیق کی اس کا اپنا ایک مقام اور مقصد ہے۔ پتھر کو لوہے کی جگہ استعمال نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی لوہے کو پتھر کی جگہ۔ اسی طرح ہر انسان کے دنیا میں آنے کا ایک مقصد اور مقام ہے ایک انسان دوسرے انسان کا متبادل نہیں ہوسکتا جیسے ایک انسان کی ہاتھ کی لکیریں یا فنگر پرنٹس مختلف ہیں ایسے ہی زید کو بکر نہیں سمجھ سکتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے متاثر ہو کر اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہر کوئی کسی ادارے کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔ ہر ادارے کا سربراہ ایک ہوتا ہے ، ایک سے زائد سربراہ بھی نہیں ہو سکتے ورنہ نظام نہیں چل سکتا۔ایک ہی باپ کے دو بیٹوں کی تربیت ایک جیسی ہوتی ہے ان کو ایک ہی تعلیمی ادارے میں تعلیم دلوائی جاتی ہے لیکن وہ دونوں ایک جیسی شخصیت نہ ہونے کے باعث ایک ہی کیرئیر کے لئے منتخب نہیں ہو سکتے وغیرہ وغیرہ۔
ہم جب کبھی کسی دوسرے انسان کو اپنے سے بہتر مقام پر دیکھتے ہیں تو فوراً دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میں اس کی جگہ ہوتا۔ خاص طور پر جب ہم اپنے بچپن کے ساتھی، اسکول فیلو یا کسی بھی تعلیمی ادارے سے ایک ساتھ فارغ ہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ وہ تو ایک نہایت مشہور ادارے کا سربراہ ہے اور میں ایک مشہور ریسٹورنٹ کا مالک، تو یک دم خیال آتا ہے کہ کاش میں اس ادارے کا سربراہ ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
"خالقِ کائنات اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں" کے بنیادی اصول کے تحت روئے زمین پر ایک کام کے لئے ایک انسان متعین کیا گیا، کوئی دوسرا انسان وہ کام تو کر سکتا ہے لیکن دونوں کے کام کرنے کے طریقہ کار اور نتائج بالکل مختلف ہوتے ہیں۔دونوں مل کر بھی کوشش کرلیں کہ ان کی پرفارمنس ایک دوسرے پر منطبق ہو جائے تو یہ ممکن ہی نہیں جیسے ایک کلاس میں ایک بچہ ہی اول پوزیشن حاصل کر سکتا ہے، کسی بھی ادارے میں ایک ہی پوزیشن پر کام کرنے والے افراد ایک دوسرے سے مختلف پرفارمنس و مختلف نتائج مہیا کرتے ہیں۔
گویا فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے لئے فطرت جیسا عمل کرنا ہوگا۔ فطرت خالقِ کائنات کا وصف ہے اس کا اکیلے تن تنہا بغیر کسی کی شرکت کے کائنات کا نظام چلانا ایک ایسی مثال ہے جس پر عمل کرنا انسان کے لئے ناممکن ہے لیکن اس وصف سے متاثر ہوکر اس سے ملتا جلتا عمل کرنا بھی ہم آہنگی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ وَحْدَہٗ لا شَرِیکَ لہٗ ایک ایسا وصف ہےجسے انسان پر منطبق کریں تو خود غرضی کا گماں ہوتا ہے کہ ایک انسان اکیلے سب کام کرنا چاہتا ہے، کسی اور انسان کو اس میں شریک کرنا پسند نہیں کرتا تاکہ اس کام کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تمام ثمرات خود ہی سمیٹ لے لیکن ایسا نہیں ہے ذرا سی دیر کے لئے اس وصف کو ایک اور زاویئے سے دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی کھیل میں ایک ٹیم کا ایک ہی کپتان ہوتا ہے ، میچ جیتنے کے بعد جیت کا سہرا پوری ٹیم کے گلے میں ڈالا جاتا ہے بلکہ اکثر مین آف دی میچ ٹیم کا کپتان نہیں ہوتا بلکہ اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر کوئی کھلاڑی بھی اس کا حقدار ہو سکتا ہے۔اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کپتان (وَحْدَہٗ) ہے اور اس کا کوئی شریک کپتان بھی نہیں جب کہ دیگر کھلاڑی اس کی جیت یا ہار میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔اس اصول پر ہی کسی بھی کھیل میں ٹیم کے نتائج بہتر دستیاب ہوتے ہیں۔اس اصول پر عمل پیرا ہونے کے باوجود کسی ٹیم کا ہار جانا اس امر کی نشاندہی ہے کہ یہ انسانوں کا نظام ہے خالقِ کائنات کا نہیں لیکن اس سے ہم آہنگی کے نتیجے میں کھیل کا خوش اسلوبی سے وقوع پذیر ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہی واحد راستہ ہے کسی بھی کامیابی کا۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 216 Articles with 162246 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More