میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب میں نے اپنی کئی تحریروں میں یہ بات کہی کہ وہ رب وہ خالق کائنات وہ پروردگار جس نے ہمیں پیدا کیا ہمیں اس دنیا میں بھیجا وہ دنیا کی ستر مائوں سے زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی بنائی ہوئی دوزخ یعنی جہنم میں اس کا نام لیوا اس کا بندہ چلا جائے بلکہ ماں کے پیٹ میں نو ماہ تک غذا دینے سے لیکر روح کے قبض ہونے تک اس کی مہربانیاں اور کرم نوازیاں اپنے بندے پر ہر وقت اور ہر لمحہ جاری و ساری رہتی ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ اس رب کی ہمارے اوپر کتنی بڑی نوازش اور مہربانی ہے یعنی اس کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں ایک اہل ایمان مسلمان کے گھر میں پیدا کیا پھر اس پر کرم یہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا جس کی تمنا انبیاء کرام تک نے کی اور یہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا صدقہ ہے کہ وہ رب ہم گناہ گاروں خطاکاروں اور سیاح کاروں کو اجتماعی عذابات سے دور رکھے ہوئے ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے صدقہ و طفیل اس رب نے ہمیں بروز قیامت اپنی بخشش کے لیئے اس زندگی میں اتنے اسباب پیدا کردیئے کہ ہم اپنی بخشش کروالیں اگر ہم اس کی اپنے بندے کی بخشش کے انداز پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے بندے سے کتنی محبت کرتا ہے کتنا پیار کرتا ہے بس ہمیں دیکھنا ہوگا اپنی زندگی کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ زندگی جو ایک عارضی زندگی ہے ایک کمرئہ امتحان ہے اور اس امتحان میں ہمیں مکمل پاس ہوکر ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی میں داخل ہونا ہے تو ہم نے اس کے لیئے کیا کیا تیاری کی ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم اس رب کی اپنے بندے کے بخشش کے چھوٹے چھوٹے انداز کو بھی دیکھیں تو ہمیں حیرانی ہوگی یعنی ایک طوائف کو اس لیئے بخش دینا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلا کر اس کی پیاس بجھائی اور اسے تازہ دم کردیا یہ اس رب کی کرم نوازی نہیں تو کیا ہے ایک حدیث مبارکہ میں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا کوئی معمولی تکلیف پر صبر کرنے پر بھی اجر ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی ہر تکلیف چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اس کا اجر لکھا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ گناہوں سے چھٹکارے کا سبب بن جاتی ہے " ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ بھی اس رب الکائنات کا اپنے بندے کے لیئے بخشش کا ایک انداز ہے یعنی اگر کوئی شخص بیمار ہے تو وہ جب تک بیماری کی حالت میں رہتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح جھڑتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ اپنے رب سے ملتا ہے تو گناہوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے ۔بیماری تکالیف پریشانیاں اور مصیبتیں انسان کے لیئے آزمائش کی شکل میں زندگی میں داخل ہوتی ہیں اور اللہ تعالی انہی لوگوں کو آزمائش کے امتحان میں ڈالتا ہے جسے وہ اس قابل سمجھتا ہے اور اپنا چنا ہوا بندہ مانتا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ آزمائشیں بھی ہماری بخشش کا ذریعہ ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ آزمائش ہمارے انبیاء کرام علیہم السلام کے اوپر نازل ہوئی کیوں کہ وہ اللہ تعالی کے سب سے زیادہ مقرب اور محبوب بندے تھے انبیاء کرام کی زندگیوں پر آنے والی آزمائشوں کے قصے قران مجید میں بھی ہمیں بیشمار ملتے ہیں اور ان کے زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے ہمارے سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر بھی اللہ باری تعالی کی طرف سے آزمائش آئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے اہل بیت اطہار پر بھی آزمائش آئیں اور کم و بیش سبھی انبیاء کرام کی زندگیوں میں آزمائشوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی اپنے بندے کی بخشش کے لیئے اپنے بندے کو کیسے کیسے مواقعہ فراہم کرتا ہے نیکیوں کے انداز اور طریقے بھی مختلف ہیں سب سے پہلا ، اعلی اور اللہ تعالی کا پسندیدہ عمل انسان کا استغفار کرنا ہے یہ وہ عمل ہے جس پر حضرت آدم علیہ السلام حضرت اماں حوا علیہا السلام حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام حضرت دائود علیہ السلام اور خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے بھی عمل کیا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں استغفار کرنا نیک اور متقی لوگوں کی ایک امتیازی صفت مانی جاتی ہے توبہ اور بخشش کا عمل بھی ایسی نیکیوں میں شامل ہیں اگر آپ میری پچھلی تحریروں کا مطالعہ کریں تو آپ کو ایسے کئی واقعات ملیں گے جن میں اللہ رب العزت نے مختلف لوگوں کی توبہ و استغفار کے سبب نہ صرف بخشش فرمادی بلکہ انہیں ایک بلند مقام و مرتبہ سے بھی نوازا جس کی وجہ سے ان کا نام تاریخ اسلام میں رہتی قیامت تک زندہ و تابندہ رہے گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آیئے میں آپ لوگوں کو اللہ تعالی کے اپنے بندوں کی بخشش کے جو انوکھے انداز ہیں وہ بتاتا ہوں بروز قیامت جب ترازو کے پلڑے میں انسان کے گناہوں اور نیکیوں کا موازنہ کیاجائے گا تو ایک شخص ایسا ہوگا جس کے نیکیوں کے پلڑے میں کچھ بھی نہیں ہوگا وہ بلکل خالی ہوگا جبکہ گناہوں کا پلڑہ پورا بھرا ہوا ہوگا تو اللہ رب العزت اس سے فرمائے گا کہ کیا تو نے زندگی میں کوئی نیکی نہیں کی؟ تو وہ نظریں جھکاتا ہوا عرض کرے گا یااللہ نہیں میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی کہے گا کیا تو نے میرے کسی ولی یا خاص بندے سے بھی کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں کیا ؟ تو وہ کہے گا نہیں اللہ تعالی پھر پوچھے گا کیا کبھی میرے کسی محبوب بندے کی زیارت بھی نہیں کی ؟ تو کہے گا نہیں تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ اسے جہنم کی طرف لیجائو لیکن جب فرشتے اسے جہنم کی طرف لیکر جارہے ہوں گے تو وہ یکدم بھاگا ہوا آئے گا اور عرض کرے گا کہ اےمیرے رب ایک دفعہ میرے علاقے میں ایک نیک عالم دین بزرگ تشریف لائے تھے میں نے دور سے ان کی زیارت کی اور دل میں سوچا کہ کیا ایسے ہوتے ہیں اللہ کے ولی ؟ اس کی یہ بات سن کر اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس نے میرے محبوب ولی کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے اس لیئے اس کے تمام گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کرکے اسے جنت عطا کرتا ہوں اسے جنت میں لیجائو ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہے اس رب الکائنات کے اپنے بندوں سے محبت کا انداز اسی طرح حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص بہت گناہگار تھا اس نے اپنی پوری زندگی اللہ تعالی کی نافرمانیوں میں گزاری یہاں تک کہ اس کا انتقال ہوگیا بنی اسرائیل نے بغیر گوروکفن اسے گندگی کے ڈھیر پر ڈال دیا اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو وحی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ ہمارا ایک دوست فوت ہوگیا ہے اور لوگوں نے اسے گندگی کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے موسی علیہ السلام اسے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ وہاں سے اٹھائو تجہیز و تکفین کرو اور اس کا جنازہ پڑھائو جب حضرت موسی علیہ السلام وہاں پہنچے تو دیکھا کہ واقعی یہ تو ایک بڑا گناہگار انسان تھا آپ علیہ السلام کو اسے دیکھکر حیرت تو ہوئی لیکن اللہ تعالی کا حکم بجا لاتے ہوئے انہوں نے نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ اس شخص کی تجہیزوتکفین کی نماز جنازہ پڑھایا اور دفنادیا بعد میں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یااللہ یہ شخص تو واقعی بڑا گناہگار اور خطاکار تھا ایسے اعزاز کا حقدار کیسے بنا ؟ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے موسی تھا تو یہ گناہگار اور سزا کا حقدار بھی مگر اس کی ایک عادت تھی کہ جب بھی یہ توریت کھولتا اور اس میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا نام نامی دیکھتا تو فرط محبت سے اسے چومتا اپنی آنکھوں سے لگاتا اور ان کی ذات طیبہ پر درود پاک کے پھول نچھاور کرتا بس اس کی اس ادا نے مجھے اتنا خوش کیا کہ میں نے اس کے سارے گناہ معاف کرکے اسے یہ عزت و وقار عطا کیا اور ستر حوریں اس کی نکاح میں دے دی (حلیتہ الاولیاء ،وہب بن منبہ4/45 ،حدیث 4695 ) میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ان دونوں واقعات سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ رب اپنے بندوں کی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی نہیں بھولتا اور انہیں ان کے بخشش کے لیئے استعمال کرتا ہے اس لیئے میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں سے محبت کا اندازہ لگانا ہمارے لیئے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے جب ابلیس لعین نے اللہ تعالی سے اپنی کی گئی عبادات کا واسطہ دے کر کہا کہ مجھے صبح قیامت تک نہ اٹھانا بلکہ مجھے دنیا میں بھیجدینا تو اللہ تعالی نے سوال کیا کہ تو وہاں کیا کرے گا ؟ تو اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں کو تیرے احکامات پر عمل کرنے سے باز رکھوں گا نیکیوں سے دور کرکے انہیں گناہوں کی طرف دھکیل دوں گا تو اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آگئی اور فرمایا جا میں تجھے دنیا میں پھینکتاہوں مگر میری ایک بات سن لے اگر میرا بندہ تیرے بہکاوے میں آکر کوئی گناہ کرتا ہے اور بعد میں اسے اس پر ندامت ہوجائے اور وہ میری بارگاہ میں آکر توبہ و استغفار کرے گا تو میں اسے ایسے معاف کردوں گا جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں آپ خود بتائیں یہ اس رب العالمین کی اپنے بندوں سے محبت نہیں تو کیا ہے ؟ قران مجید کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر 156 میں فرمایا کہ میری رحمت بڑی وسیع ہے اور ایک حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ " جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اسے ایک کتاب جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے اس میں لکھا اور اپنی ذات کے متعلق وہ لکھتا ہے کہ " میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے "۔ میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں سورہ الاعراف کی آیت کے مطابق رحمت کے وسیع ہونے کا مطلب ہے لامحدود ہونا یعنی جس کی کوئی حد نہ ہو اور حدیث مبارکہ کے مطابق بیشک وہ قہار بھی ہے جبار بھی ہے لیکن اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے والے لوگوں کے لیئے نہیں بلکہ اگر گناہگار بھی اس کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پر نادم ہوکر استغفار کا دامن تھام لیتے ہیں تو ان پر بھی اس کے غضب پر اس کی رحمت غالب ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں امام مسلم ، ترمزی اور ابن ماجہ کی مشترکہ حدیث جس کے راوی ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالی کی رحمت کے سو حصے ہیں جن میں نناوے حصے اس نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے بندوں پر بروز قیامت رحم فرمائے گا اور صرف ایک حصہ اس نے دنیا پر نازل کیا ہے جس کی وجہ سے ساری مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے وہ اس ایک حصے کی وجہ سے ہے یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کے اوپر سے پائوں اٹھاتا ہے تاکہ اسے کوئی تکلیف نہ پہنچے یہ بھی اس رحمت کے ایک حصے کی وجہ سے ہے " ۔ میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں اس باری تعالی کی تمام مخلوقات میں اگر رحم کرنے کا تھوڑا بہت جذبہ بھی ہے تو وہ اس کی رحمت کے سو حصوں میں سے اس ایک حصے کا نتیجہ ہے جو اس نے دنیا پر نازل کیا اب انداہ لگایئے کہ بروز قیامت اس کی رحمت ہم گناہگاروں پر اس کے غصب پر کتنی غالب ہوگی اگر ہم نے اس دنیا میں اس کے احکامات پر عمل کیا ہر کام اس کی رضا کی خاطر کیا اور ہر کام میں اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے ہر عمل سے اس رب کو راضی کیا تو ان شاء اللہ اس چھما چجم برستی ہوئی رحمت میں بروز قیامت ہم خطاکاروں کا بھی حصہ ہوگا ۔ میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اللہ تعالی بڑا غفور الرحیم ہے بڑا کرم کرنے والا ہے رحم کرنے والا ہے لیکن صرف اپنے ان بندوں کے لیئے جو اس کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نیک راہوں پر چلتے ہیں جو گناہوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور گناہ ہوجانے پر نادم ہوکر اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے ہیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس نے اپنے جن محبوب بندوں کی بخشش کردی ہے جن لوگوں کو جنت کا داخلہ عطا کردیا ہے ان کے صدقے ان کے طفیل ہمیں بھی بخش دے ہماری بھی مغفرت کردے اور ہم پر بھی اپنی رحمت کی چھما چھم بارش برسادے بقول شاعر فقط امید ہے بخشش کی تیری رحمت سے وگرنہ عفو کے قابل میرے گناہ نہیں
|