آہ ، ایک اور کوچ بھی خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی یزیدیت کا شکار ہوگیا



کم و بیش ایک سال قبل شام کا وقت تھا اور میں اپنی روزمرہ کام میں مصروف عمل تھا کہ اس دوران ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی سلام دعا کے بعد اس نے میرے سپورٹس کے حوالے سے کام کی تعریف کی اور بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر میری خبریں پڑھتا ہے اور بقول اس کے خوشی اس بات کی ہے کہ میں بلالحاظ لکھتا ہوں ، میں نے اس کا شکر یہ ادا کیا اوراس کا مدعا پوچھا کہ اس نے کس لئے فون کیا ہے جس پر اس نے بتایا کہ اس کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر والی بال کوچ جنہوں نے لاتعداد والی بال کے کھلاڑی صوبے اور قوم کو دئیے ہیں کے بارے میں ایک ریسرچ رپورٹ شائع کرنی ہے اس کیلئے مجھے کیا کرنا ہوگا ، جس پر میں نے اسے بتایا کہ پہلے اس کا ڈیٹا جمع کرو ، پھر تصاویر اور پھر بعد میں اس پر ہم کام کرینگے یہی باتیں سننے کے بعد اس نے بعد میں بتایا کہ وہ خود بھی شاگرد ہے اور اس کا تعلق اکوڑہ خٹک ہے اور والی بال کے کھیل سے وابستگی ہے اور اس کے بہت سارے شاگرد اس وقت والی بال کے کھیل سے وابستہ ہیں جس پر میں نے اس سے کہا کہ نوشہرہ اوراس سے ملحقہ علاقوں میں اگر کھیلوں سے وابستہ کوئی مسئلہ ہو ، ایونٹس ہو تومجھے بتا دیا کریں جس پر اس نے مثبت جواب دیا اور کہا کہ کسی دن بیٹھ کر گپ لگائیں گے اور پھر اس کا فون بند ہوگیا.

تین چار دن بعد اس کا دوبارہ فون آیا اور کہا کہ اس نے کچھ معلومات حاصل کرلی ہیں تصاویر بھی مرحوم والی بال کوچ کے بارے میں حاصل کرلی ہیں اور مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد وہ والی بال کے حوالے سے باتیں کرنے لگا اور پھر اس سے ایسی گپ شپ ہوگئی کہ دو تین بعد شام کے اوقات میں اور کبھی کبھار پریس کلب میں کام کے دوران فون آجاتا اور والی بال اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے بات چیت ہو جاتی .آصف اختر نامی والی بال کا یہ کوچ نہ صرف والی بال کا بلکہ کھیلوں کا دلداد ہ اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں لانے کا خواہشمند تھا کبھی کبھار وہ کھیلوں کے شعبے میں ہونیوالی کرپشن پر بات کرتا اور افسوس کا اظہار کرتا کہ میں اس پر لکھتا ہوں لیکن کسی کو اس بارے میں پروا ہی نہیں ، اور میں اسے کہتا کہ میں مایوس نہیں ہوں انشاءاللہ کھیلوں پر اچھاوقت آئیگا اور بہت سارے کرپٹ اندر ہو جائیں گے.

اور پھر نئے ڈائریکٹر جنرل خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ آگئے جنہوں نے آتے ہی صوبے بھر کے مختلف کھیلوں سے وابستہ ڈیلی ویجز کوچز کو فارغ کردیاانہیں فارغ کرنے ان کے ایک کار خاص نے انہیں مشورہ دیا تھا حالانکہ جس کار خاص نے سب کو فارغ کرنے کا مشورہ دیا تھا وہ خود جعلی کاغذات پر بھرتی ہوا تھا لیکن اس کی وجہ سے کم و بیش تین سو سے زائد ڈیلی ویجز ملازمین جس میں مختلف کھیلوں کے کوچز شامل تھے وہ بھی جون 2023سے فارغ ہوگئے اور پھر آصف اقبال سے ہر دوسرے دن فون پر رابطہ ہوتا زیادہ تر وہ رابطہ کرتا، پشاور سپورٹس کمپلیکس میں بھی اس سے ملاقات ہوئی ، اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے اس کوچ سے جب بھی رابطہ ہوتا تو وہ یہی کہتا کہ میرے بچوں کی سکول فیس بڑھ رہی ہیں میں کروں تو کیا کروں مجھے تو کوئی اور کام آتا بھی نہیں ، اور کب تک یہ پی سی ون ہو جائیگا کیونکہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ نے پی سی ون کا لارا لگا کر سب کو سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا تھا جس کی طرف انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران کبھی توجہ نہیں دی اور پھر یوں ہوا کہ پی سی ون تو فروری 2024 تک مکمل نہیں بن سکا لیکن گذشتہ روز اطلاع ملی کہ دل کے دورے کے باعث والی بال کے کوچ آصف اختر انتقال کرگیا ، انا للہ وانا علیہ راجعون.

دوسروں کی بہتری کیلئے سوچنے والا آصف اختر خود موت کی وادی کا مسافر ہوگیا ،کرکٹر کوچ عزیز خان کے بعد یہ دوسرا کوچ ہے جو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک بے رحم ڈائریکٹر جنرل کے ظالمانہ فیصلے کا شکار ہوگیا ، ٹھیک ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے لیکن کن حالات میں موت ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون ہے اس کا حساب بھی ہوگا اور حساب والے دن کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ "صاحب پی ایم ایس آفسر ہے "اس سے اجازت لیں اور کوئی ان سے ملاقات نہیں کرسکتا اور اسے کسی کی پروا نہیں ، اس اللہ کے دربار میں جو سب کا خالق و مالک ہے اور سب کا مددگار ہے کوئی سراٹھا بھی نہیں سکے گا اور انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ مرحوم آصف اختر اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پراللہ تعالی سے شکایت ضرور کرے گا کہ کس ظالم نے انہیں اور ان جیسے بہت سارے غریبوں کو بیروزگار کیا ہے جس کا جواب "پی ایم ایس افسر سے لیکر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سب ذمہ داران کو دینا پڑے گا" . یہی نہیں بلکہ کم و بیش و دو ماہ قبل انتقال کر جانیوالے کرکٹر و مایہ ناز کوچ عزیز خان عرف جے جے جنہیں بیروزگار کیا گیا اور اسی بیروزگاری کے صدمے میں وہ انتقال کر گئے .

حیران کن طور امر یہ ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیلی ویج ملازمین خواہ وہ کوچز ہوں یا دیگر ان کیلئے فنڈز نہیں ، اور یہ رونا موجودہ ڈی جی سے لیکر اس سے قبل کے ڈی جی سپورٹس روتے رہے ہیں لیکن ان کی تین گاڑیوں کیلئے لاکھوں روپے کے فیول کے پیسے تھے ، ان کیلئے گاڑیاں موجود تھی ، آج بھی فنڈز نہ ہونے کا رونا رویا جاتا ہے لیکن آج بھی لاکھوں روپے کی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تزئین و آرائش کا کام جاری ہے ، حالانکہ جس نے کام کرنا ہوتا ہے اسے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ صوفہ اور دیوار سمیت پردے کس رنگ کے ہیں ، لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈائننگ ٹیبل تک منگوائے گئے جیسے یہ ڈائیننگ ٹیبل ان کے ساتھ قبروں میں جائیں گے .عجیب بے حسی اور بے شرمی ہے کہ غریبوں کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس کچھ نہیں ،کھلاڑیوں کیلئے کچھ نہیں ، جن کے نام پر صوبائی سپورٹ ڈائریکٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور جن کے سر پر خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ چل رہا ہے جن کی وجہ سے صوبائی اور قومی سطح کے کھلاڑی نکل گئے وہ خوار ہیں اور جن کی کوئی اوقات نہیں جنہیں کچھ بھی نہیں آتا اور وہ دوسروں کے سہارے چلتے ہیں ان کے اور ان کیساتھ وابستہ افراد کے مزے ہیں - فنڈز بھی ہیں ، گاڑیاں بھی ہیں ، ٹورز بھی ہیں اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سٹور سے بہت ساری چیزیں بھی ان کی دسترس میں ہیں ، ملازمین بھی ان کے گھروں پر کام کرتے ہیں ، ہاسٹل پر بھی ان لوگوں نے قبضے کئے ہیں مگر مجال ہے کہ کسی کو احساس ہو کہ وہ کریا رہے ہیںاور ان کا بھی احتساب ہوگا.

والی بال کوچ آصف اختر نے وفات سے ایک دن قبل فون پر رابطہ کیا تھا اس وقت میں پریس کلب میں تھا اور اس نے پوچھا "چی سر جی سہ بہ اوشی او کنہ" یعنی کچھ ہو جائیگا یا نہیں اور جواب میں میں نے کہہ دیا کہ یہ سارے جھوٹے ہیں جب تک نئی کابینہ عمل میں نہیں آتی یا پھر نئی وزارت کے لوگ نہیں آتے یہ ایسے ہی رہے گااور پھراس کی آواز پژمردہ ہوگئی ، مجھے افسوس بھی ہوا لیکن مجھے جھوٹے اور دھوکے والی باتیں بری لگتی ہیں اس لئے صاف کہہ دیا اور آج اس کی انتقال کی خبر سن کر مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں اس کی موت کا ذمہ دا ر ہوں ، میں بھی اسے پی سی ون ہو جائیگا کا لارا دیکر گذشتہ نو ماہ کی طرح لارے پر لگاتا تو اسے کچھ نہیں ہوتا لیکن یقینا پھر بھی یہی ہو جاتا ، لیکن آصف اختر بھائی آپ ایک دوسرے والی بال کوچ کے بارے میں مجھے رپورٹ بنانے کا کہہ رہے تھے اور میں ایک سال میں اس کی رپورٹ تو نہیں بنا سکا لیکن آج آپ کیلئے یہ چند الفاظ لکھتے ہوئے مجھے افسوس ہورہا ہے کہ ہم کیسے بے حس لوگ ہیں جہاں پر ٹیلنٹ کی قدر نہیں ، جہاں پر ظلم وزیادتی عام ہے اور سب سے بڑاظلم اور جہل یہی ہے کہ اس پر خاموشی بھی ہے-
#kikxnow #digitalcreator #sports #volleyball #kpk #Kp #pakistan #peshawar

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420594 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More