بخدمت جناب وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی خدمت میں عرض داشت


جناب عالی!

آپ کو اس خط کے ذریعے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جہاں ایک سال سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن کھیلوں کی کوئی سرگرمیاں نہیں ہوئی اور نہ ہی کھلاڑیوں کی بہتری کیلئے کوئی اقدامات اٹھائے گئے.اس خط کا بنیادی مقصد ڈائریکٹریٹ کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کرنا ہے تاکہ اس ڈائریکٹریٹ کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کیا جاسکے .اس مرتبہ راقم آپ کو صرف مسائل نہیں بلکہ اس کے حل کیلئے راستے بھی دکھائے گا تاآغاز سے ہی پتہ چل سکے اور کھیلوں اور کھلاڑیوں کی پروموشن ہوسکے.
جناب عالی!
پی ٹی آئی کے سابق دور حکومت میں انڈر 21 کھلاڑیوں کیلئے ماہانہ سکالرشپ کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناءپر یہ سلسلہ روک دیا گیا اور پھر یہ کہا گیا کہ اب فنڈز نہیں ، اسی وجہ سے سینکڑوں کھلاڑی آج بھی انڈر 21 کے انعامات اور سکالرشپ کے منتظر ہیں ، صوبائی ڈائریکٹریٹ کی بے حسی کی وجہ سے کھلاڑی اب کھیلوں کی جانب نہیں آرہے کیونکہ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جارہی. نگران دور حکومت میں آنیوالے ایک ڈائریکٹر جنرل نے صوبہ بھر کے ڈیلی ویجز ملازمین جس میں کھیلوں کے کوچز بھی شامل ہیں کو بیروزگار کیا گیا ، جو کہ نئے کھلاڑیوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے اور گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے کوچز موجود نہیں لیکن فیسیں وصول کی جارہی ہیں اور کھلاڑیوں کی تربیت بھی نہیں کی جاتی .ان ڈیلی ویجز کوچز نے بہت سارے صوبائی اور قومی سطح کے کھلاڑی پیدا کئے لیکن ان کی جانب کوئی توجہ نہیں ، نہ ہی انکی حوصلہ افزائی کی جارہی ہیںگذشتہ سال جون کے بعد فارغ ہونیوالے کوچز آج بھی خوار ہیں لیکن ان کیلئے کچھ نہیں لیکن اس کے مقابلے میں آنیوالے پی ایم ایس افسران سمیت ڈیپارٹمنٹ میں اہم عہدونں پرتعینات افراد کی سہولیات کیلئے سب کچھ موجود ہیں.
جناب عالی!
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام بننے والے بیشتر ہاکی سٹیڈیم غیر معیاری بنائے گئے ہیں حالانکہ اس سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا اپنا انجنئیرنگ ونگ موجود ہیں جو تعمیراتی کام کے معیاری کرانے کا ذمہ دار تھا اسی ڈیپارٹمنٹ کے بعض افسران جو ڈیپوٹیشن پر لائے گئے تھے نے غیر قانونی طور پر اپنے رشتہ داروں کے نام پر ٹھیکے لئے اور اسی وجہ سے نہ صرف اسلامیہ کالج پشاور جیسے ادارے کا سٹیڈیم غیر معیاری بنایا گیا بلکہ پشاور کا لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم بھی غیر معیاری بنایاگیا ہے جس کی شکایات بھی کی گئی ہیں لیکن اس پر خاموشی چھائی ہوئی ہیں. اسی طرح کھیلوں کا ایک ہزار سہولیات منصوبے میں ایسے منصوبے کروائے گئے جس کی ضرورت نہیں تھی اور یہ سب کچھ مہنگے کروائے گئے ، ڈیپوٹیشن پر آنیوالے افسران نے مال مفت اور دل بے رحم کے مصداق ایسے منصوبے لاتعداد منصوبے کروائے ، جس پر کروڑوں روپے تو لگے مگر فائدہ کچھ نہیں ہوا جس میں سب سے بڑا منصوبہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بننے والا کلائمبنگ وال ہے جس پرایک کروڑروپے لگائے گئے لیکن دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی فائد ہ نہیں ہوا اسی طرح کا مہنگا ترین کلائمبنگ وال مردان میں بھی بنایاگیا ، چترال میں گلیوں میں پولو کے گراﺅنڈز بنائے گئے ، سکواش کے ایسے کورٹ بنائے گئے جہاں ضرورت بھی نہیں تھی لیکن بس سرکاری فنڈز کو پہیے لگائے گئے جس کی تحقیقات کی ضرورت ہے .اسی طرح جو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بہت ساری گاڑیاں اس وقت دیگر ڈیپارٹمنٹ میں ہیں ، اسی طرح بہت سارے اہلکار ڈیوٹی انجام نہیں دیتے حالانکہ یہی مستقل ملازمین ہیں اور تنخواہیں بھی اس ڈیپارٹمنٹ سے لیتے ہیں مگر ڈیوٹیاں دوسرے افسران کے گھروں میں کرتے ہی ، اور اس بارے میں پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ ان افسران کو اپنی نوکریاں عزیز ہیں. اسی طرح سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاسٹل پر مختلف ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کا قبضہ ہے ، مفت میں رہائش اختیار پذیر ہیں اور انکے ذمے کروڑوں روپے واجب الادہ ہیں مگر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں.اسی طرح غیرقانونی طور پر گھر بنائے گئے ہیں لیکن اس امر پر بھی خاموش چھائی ہوئی ہیں.
جناب وزیراعلی خیبر پختونخواہ!
خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کا ایسا سلسلہ جاری ہے جس کا احتساب ضرور ی ہے ، نگران حکومت میں ایسے افراد بھی جعلی کاغذات پر پروموٹ کئے گئے جن کا کھیل سے کوئی وابستگی نہیں بس کارخاص بنے تھے اور انہوں نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو مال مفت سمجھ کر لوٹا ، ایسے لوٹا ہے کہ ضم اضلاع کے سٹور روم سے جہاںپر انٹر اکیڈمیز مقابلوں سمیت ضم اضلاع کے سپورٹس فیسٹیول کا سامان پڑا تھا جس میں بیشتر سامان غائب ہو چکا ہے جن میں مخصوص لوگ ملوث ہیں جن کی ویڈیوز اور تصاویر بھی ہیں اور یہ سب کو پتہ ہے کہ کہ انہوں نے کس طرح گاڑیاں اور موٹرکاریں سامان سے بھرکر غائب کروا دی ہیں حالانکہ یہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ تھا لیکن بیوروکریٹ کے کارخاص بندوں نے اسے اپنے باپ کا مال سمجھ کر لوٹا .

صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے گرانٹ اینڈ ایڈ لینے کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشنز انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں ، جس کے ثبوت بھی ہیں مختلف کھیل اس حوالے سے بدنام ہو چکے ہیں ،مگر ان کے خلا ف کوئی کارروائی نہیں کررہا ، کھیلوں کی وزارت میںاختیارات کے استعمال کا یہ حال ہے کہ ہر ایک اہلکار اپنے آپ کو آگے لانے کے چکروں میں ہیں حالانکہ انہیں کھیل اور کھلاڑیوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے .ماضی میں بھی ایسے مقابلے کروائے گئے جو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے تھے ، جس کی بڑی مثال یونیورسٹی کے مقابلے ہیں ، جو کہ ہائیر ایجوکیشن کی ذمہ داری ہے لیکن چند مخصوص افراد کی وجہ سے یہ مقابلے کروائے گئے . کہنے کو بہت ساری باتیں ہیں لیکن یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ صوبائی سپورٹ ڈائریکٹریٹ نے کتنے نئے کھلاڑی گذشتہ دو سالوں میں متعارف کروائے ، ریکارڈ دیکھنے کی ضرورت ہے ، یہ نہیں کہ جو لڑکے انڈر 14 تھے انہیں آج انڈر 21 کی فہرست میں ڈال کر سب کو ماموں بنانے کا سلسلہ بنایا جارہا ہے.
نگران دور حکومت میں پشاور اور بٹگرام میں ایسے منصوبے جہاں پر سیکشن فور لگایا گیا تھا سیاسی افراد کی مداخلت کی وجہ سے بند کئے گئے اور سیکشن فور ڈیپوٹیشن پرآنیوالوں نے ختم کردیا صرف اس لئے کہ "باہمی گٹھ جوڑ "تھی اور اسی باعث آج سیکشن فور ختم ہونے کے بعد ان زمینوں پر سیاسی افراد نے اپنی ہاوسنگ سکیمیں شروع کردی جس میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنے ہی لوگ ملوث ہیں.
گزارش ہے کہ اس معاملے پر تحقیقات کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے.
شکریہ
مسر ت اللہ جان

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499000 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More