پی سی بی کی کے ایف سی کیساتھ معاہدہ ، کیا ہم مسلمان کہلوانے کے قابل ہیں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشتو زبان کی ایک محاورہ مشہور ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے اسی طرح دشمن کو سپورٹ کرنے والا بھی دشمن ہوتا ہے.پتہ نہیں یہ محاورہ کس موقع پر بولا گیا تھا لیکن آج کے دور اگر اس محاور ے پر غور کریں تو سمجھ نہیں آتی کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلوا بھی سکتے ہیں یا نہیں اور کیا مسلمان مومن بھی ہیں یا نہیں اور کیا پی ایس ایل کو سپورٹ کرنے والے اور اس میں کے ایف سی کا سپانسرشپ کرانے والے اپنے آپ کو مسلمان کہلوا بھی سکتے ہیں یا نہیں.
یہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک حدیث منقول کررہا ہوں جس میں فرمایاگیا ہے کہ مسلم امہ ایک جسم کے مانند ہے اگر جسم کے کسی حصے میں درد ہو توپورے جسم کو درد ہوتا ہے. ، یہ خاتم النبین کا فرمان ہے .
کیا ہمیں درد محسوس ہورہا ہے ، ان بے کس بچوں اور خواتین کو دیکھ کر ، جن کی ویڈیوز کم از کم ہر شخص کے موبائل میں موجود ہیں ، اگر درد محسوس نہیں ہورہا تو پھر ہم امت مسلمہ نہیں ، بلکہ ہم انسان کہلانے کے بھی قابل نہیں .کیونکہ نبی آخر زمان محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کافرمان غلط نہیں ہوسکتا.
گذشتہ چھ ماہ سے ایک مسلمان ملک فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت جاری ہے اور کم و بیش 2.3 ملین افراد اس وقت بھوک کا شکار ہیں ان میں کم عمر بچے ، خواتین بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیل کی جارحیت کا سامنا ہے اور معصوم بچے و خواتین اس میں مر رہے ہیں روزانہ کی بنیاد پر وڈیوز آرہی ہیں جس میں بچے اگر بمباری سے بچ جاتے ہیں تو پھر بھوک کا شکار ہوکر مر رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے پاکستان میں کسی نے اس معاملے پر کبھی افسوس کا اظہار کیا ہو ، کوئی بات کی ہو ، پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس کی مذمت کی ہو ، یا اسے غلط اقدام قرار دیا ہو .
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جنہیں کرکٹ کے شوق نے سب کچھ بھلا دیا ہے انہیں کرکٹ کے شوق نے اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں پوچھ رہے کہ پی ایس ایل کے سپانسر کرانے والے کون ہیں اوردشمن کو سپورٹ کرنے والوں کو ہم کتنا سپورٹ کررہے ہیں اس کا جواب گذشتہ دنوں راولپنڈی میں ہونیوالے کرکٹ کے ایک مقابلے کے بعد ایک صحافی کے اس سوال پر کہ کیاآپ اس جیت کو فلسطین کے نام کرتے ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ نے اس صحافی کو نکال دیا جس کو باقاعدہ رپورٹ بھی کیا گیا. لیکن چونکہ کمرشل ازم کا دور ہے ، ۔ٹھیک ہے پیسہ ہاتھ کا میل ہے لیکن اس میل کو آج کل بہت زیادہ لوگ پسند کرتے ہیں اس لئے اسے رپورٹ کرنے کی بھی کسی میں ہمت نہیں ہوتی.
کچھ عرصہ قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کانسی کو گرفتار کرنے کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو پیسے کیلئے ماں کو بیچتے ہیں ، اس وقت اس پر بڑا واویلا مچا تھا ہم نے بھی ان دنوں بڑا لکھا تھا کہ ہم کتنے بے غیرت ہیں ،کہ ہمارے بارے میں یہ کہا گیا ، پھر جنرل مشرف کے دور میں ہم نے ڈالروں کے عوض بہت کام کیا اور آج پی سی بی کی جانب سے کے ایف سی کے سپانسرشپ پر ہم خاموش ہیں کیا اس امریکی کی یہ باتیں غلط تھی یا ٹھیک ، یہ وہ سوال ہے جس پر ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے. ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آج جو کچھ فلسطین میں ہورہا ہے ، کیا یہ وقت ہم پرنہیں آسکتا کیونکہ دنیا گول ہے . |