اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کا حالیہ سیریز نیوزی لینڈ اور اس کے بعد آئرلینڈ
سے اپنے میچ جس طرح سے ہارا اس سے پاکستان میں کرکٹ شائیقین کا غصہ بورڈ کے
کرتا دھرتا پر مختلف حوالوں سے میڈیا میں نظر آرہا ہے. کوئی کاکول کی
ٹرینینگ پر بھپتی تو کوئی کھلاڑیوں میں ہم آہنگی کو تو کوئی کرکٹ میں سیاست
کے عمل دخل کو مورالزام قرار دیکر اپنا اپنا غصہ اُتار رہے ہیں.
مگر اُس نقطعہ پر کوئی نہیں آرہا کہ آخر کھلاڑیوں کو کیا پرابلم ہورہی ہیں
کہ وہ اپنی کارگردگی وہ نہیں دیکھا پارہے جس کہ لیے وہ دنیائے کرکٹ میں
مشہور ہیں .
اکثر ہمارے جیسے مُلکوں میں جو بچہ اپنی کارگردگی سے اُوپر آتا ہے. اُسے
اپنی کارگردگی کو برقرار رکھنا اور اس ہی خوف میں مُبتلا رہتا ہے کہ کہیں
مجھے میری کارگردگی نہ دیکھانے پر ٹیم سے تو نکال باہر نہیں کرینگے اس وجہ
سے کئی کھلاڑیوں کا مستقبل تاریک کے اندھیروں میں گُم ہوگیا ہے.
اکثر ہمارے جیسے جنوبی ایشیا کے علاقوں میں اسپورٹس کہ ان کھلاڑیوں گ
کارگردی پر گہرا اثر پڑتا ہے.
ہمارے جیسے مُلکوں میں کھلاڑیوں کو تین قسم کے ذہنی و نفیساتی مسائل کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں پہلا مسئلہ جو اکثر ہمارے کرکٹ اور ہاکی کے
کھلاڑیوں میں بہت ہی زیادہ ہے پایا جاتا ہے وہ غیر یقینی صورتحال کا ہے۔
ہمارے قومی سطح کے کھلاڑیوں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ کس وقت ان کو ٹیم سے
نکال دیا جائے گا۔ اس وجہ سے کئی کھلاڑیوں کو جب کوئی چوٹ لگتی ہے تو ڈاکٹر
کو نہیں بتاتے کہ اگر اس چوٹ کے باعث ڈاکٹر نے ان کو آرام کا مشورہ دے دیا
تو ان کی جگہ کسی اور کو ٹیم میں شامل کر لیا جائے گا۔ اور یہ خوف سے کئی
سپر اسٹار کھلاڑی بھی ان فٹ ہونے کے باوجود بھی زبردستی اپنے آپ کو کھیل کے
میدان میں اُتارتے رہے ہیں. جن میں وسیم اکرم، وقار یونس، یونس احمد، شاہین
آفریدی وغیرہ
جبکہ دوسری بڑی وجہ جس کا شکار دنیا بھر میں ہر ٹیم اور کھلاڑی بنتے ہیں وہ
'بیڈ پیچ' یعنی خراب کارکردگی کا ایک دور ہوتا ہے۔
اس بیڈ پیچ کے دوران پرفارمنس اور اعتماد خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور یہ
صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے جب کسی کھلاڑی نے دو یا تین میچوں میں اچھی
کارکردگی نہ دکھائی تو میڈیا، کوچ، ٹیم منیجمنٹ اور بعض اوقات دوست و احباب
بھی اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ جس کے باعث وہ کھلاڑی ڈپریشن میں چلا جاتا
ہے. دنیا کا خواہ کوئی بھی کھیل ہو، اس میں کارکردگی ذہنی آسودگی سے حاصل
ہوتی ہے۔ کارکردگی دراصل ایک 'برین سرکٹ' ہوتا ہے اور جب کسی بھی کھلاڑی کا
ردھم ٹوٹ جاتا ہے اس کی کارکردگی خراب ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کھلاڑی پر ’بیڈ
پیچ‘ ہے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کوئی طبی یا جذباتی مسئلہ تو نہیں ہے۔
اگر کوچ، کپتان یا ٹیم ڈاکٹر اس مسئلہ کو سمجھ گیا تو وہ کھلاڑی پر محنت
کرکے اُسے دوبارہ “ بیڈ پیج” سے نکال سکتا ہے اور وہ دوبارہ اپنی پرفارمنس
پر آجاتا ہے مگر آج کل ٹیم کا کوئی فرد بھی اتنی گہرائی میں جانے کا نہ وقت
ہے نہ ٹیم انتیظامیہ کے کرتا دھرتا اس کے متبادل کی پرچی لیکر مشورہ میں
لگا رہتا ہے.
جبکہ تیسری قسم کہ وہ روزمرہ کے مسائل ہیں مثلاً ایک کھلاڑی بہت اچھا کھیل
رہا ہے مگر بدقسمتی سے اسے خاندان، بچے، بیوی کے بارے میں کوئی بری خبر
ملتی ہے تو اس کا ذہن کھیل سے ہٹ جاتا ہے۔ آج کل ہم جس معاشرے میں رہے رہے
ہیں اُس میں گھر کے روزمرہ کے مسائل پر اکثر کھلاڑیوں کی بیگمات اور گھر سے
آسان موبائیل رابطہ نے کھاڑیوں کو بھی گھریلو سیاست میں انوال کرلیا ہے کہ
اکثر کھلاڑی رات دیر تک مسئلہ مسائل کو سُلجھانے میں لگے رہتے ہیں. صبح وہ
کیا خاک ٹیم میں اپنی کارگردگی کو برقرار رکھ سکے گا. ان مسائل سے تو
کھلاڑی اور ٹیم انتیظامیہ نمبروآزما تھے کہ
ملک میں جس طرح سے بورڈ میں مُسلسل سیاسی بھرتی نے بھی کھلاڑیوں کی
کارگردگی پر برا اثر پڑتا رہا ہے جو آجکل اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے.
آج کل ہر پاکستانی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سیاست اتنی نچلی سطح پر گر
جائے کہ ہر کام میں سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دی جائے اور اسی کو ہی مقدم
سمجھا جائے تو اس سے اسپورٹس مین اسپرٹ کا جنازہ نکل جاتا ہے. یعنی کھیل کو
کھیل کی حیثیت سے لینا چاہیے کسی اور حیثیت سے نہیں پھر کھیل کھیل نہیں
رہتا کچھ اور ہو جاتا ہے . کھیل کے جذبے کو کسی اور جذبے کی بھینٹ نہیں
چڑھانا چاہیے۔
ماضی میں بھی حکمراں کرکٹ میدان میں جا کر کرکٹ کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے
رہے ہیں۔ لیکن ان کا مقصد اس کا استحصال نہیں رہا۔ بلکہ کھیل سے صرف لطف
اٹھانا ہوتا تھا مگر آج اس کے بالکل برعکس ہے۔ مگر آج کل ان کا مقصد کھیل
سے لطف اندوز ہونا نہیں بلکہ سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے.
یہ جماعتیں اور ان کے منتخب کی گئے بورڈ کے اراکین اپنے مفادات تو حاصل
کرلیتے ہیں مگر ٹیم کے لڑکوں کا جو ردھم ایک دفعہ ٹوٹ جائے اُسے بنانے میں
کئی کئی سال لگ جاتے ہیں چاہے آپ انہیں کہیں بھی ٹرینینگ یا ان کی کوچنگ
کریں کھلاڑیوں کو جس ماحول میں عادت ہے وہی ماحول میں وہ اہنے آپ کو ٹرینڈ
کرنے میں سکون حاصل کر پاتا ہے.
پاکستان کرکٹ کے بڑوں سے یہی درخواست کی جاسکتی ہے کہ کرکٹ اور دوسرے
کھیلوں سے یہ سیاسی بھرتیاں پر فی الفور پاپندی لگایں کرکٹ کے علاوہ ہر
کھیل میں پروفیشنل لوگوں کو سونپا جائے اس ہی میں ہمارے کھیلوں کی بقا ہے.
نہیں تو کرکٹ کا حال بھی ہاکی اور اسکواش اور دیگر کھیلوں کی طرح نہ
ہوجائے.
|